مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

مبطلات روزہ کے احکام ← → روزے کی نیت کے دوسرے احکام

وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں (مفطرات روزہ)

مسئلہ 1950: چند چیزیں روزے کو باطل کرتی ہیں:

اوّل: کھانا پینا

دوّم: جماع کرنا

سوّم: استمنا ، یعنی مرد اپنے ساتھ یا کسی چیز کے ذریعے جماع کئے بغیر ایسا کام کرے جس سے منی خارج ہو اور یہ چیز عورتوں کے بارے میں اس تفصیل کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہے جو مسئلہ نمبر 417 میں ذکر کی گئی۔

چہارم: احتیاط واجب کی بنا پر خداوند متعال ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینا۔

پنجم: احتیاط واجب کی بنا پر غلیظغبار حلق تک پہونچانا۔

ششم: اذان صبح (طلوع فجر) تک جنابت پر باقی رہنا۔

ہفتم: عورت کا حالت حیض و نفاس میں اذان صبح (طلوع فجر) تک باقی رہنا۔

ہشتم: کسی سیّال چیز سے حقنہ (انیما) کرنا ۔

نہم: جان بوجھ کر قے کرنا ۔

ان مبطلات کے احکام آئندہ مسائل میں ذکر کئے جائیں گے۔



1
۔ کھانا اور پینا

مسئلہ 1951: اگر روزے دار توجہ رکھتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجھ کر کوئی چیز کھائے یا پیے اس کا روزہ باطل ہو جائے گا خواہ اس چیز کا کھانا اور پینا معمول ہو جیسے روٹی، پانی یا معمول نہ ہو جیسے خاک اور درخت کا شیرہ اور خواہ کم ہو یا زیادہ حتی اگر تھوڑا پانی منھ سے باہر نکالے اور دوبارہ منھ میں لے جائے اور اسے نگل لے، اس کا روزہ باطل ہو جائے گا مگر یہ کہ پانی اتنا کم ہو کہ آب دہن میں مخلوط ہو کر نہ ہونے کے برابر ہو جائے۔

مسئلہ 1952: جس وقت انسان کھانا کھانے میں مشغول ہے متوجہ ہو جائے کہ اذان صبح کا وقت ہو گیا ہے لازم ہے کہ لقمے کو منھ سے نکالے ، چنانچہ جان بوجھ کر نگل جائے اس کا روزہ باطل ہے اور اس تفصیل کے ساتھ جو بعد میں بیان ہوگی کفارہ بھی واجب ہے۔

مسئلہ 1953: اگر روزے دار اس چیز کو جو دانتوں میں پھنسی ہوئی ہے جان بوجھ کر نگل جائے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ 1954: جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہے ضروری نہیں ہے کہ اذان (طلوع فجر) سے پہلے اپنے دانتوں کو خلال کرے یا برش کرے لیکن اگر جانتا ہو کہ جو غذا دانتوں کے درمیان پھنسی رہ گئی ہے دن میں اندر چلی جائے گی تولازم ہے کہ خلال یا برش کرے۔

مسئلہ 1955: اگر روزے دار بھول كر کوئی چیز کھا ئے یا پیے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

مسئلہ 1956: آب دہن کا نگلنا گرچہ کسی ترش (كھٹی) چیز کے قصد وغیرہ سے منھ میں اکٹھا ہو گیا ہو روزے کو باطل نہیں کرتا۔

مسئلہ 1957: سراور سینے کے بلغم کو نگلنا جب تک منھ کی فضا میں نہ آیا ہو حرج نہیں ہے بلکہ اگر منھ کی فضا میں آگیا ہو اور اسے نگل جائے اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا، گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اسے نگلنے سے پرہیز کرے۔

مسئلہ 1958: انجکشن اور گلوکوز روزے کو باطل نہیں کرتا گرچہ انجکشن تقویت کا ہو یا گلوکوز شکر اور نمک کا ہو۔

مسئلہ 1959: آنکھ اور کان میں دوا کا ڈالنا روزے کو باطل نہیں کرتا گرچہ اس کا مزہ گلے تک پہونچ جائے لیکن اگر ناک میں دوا ڈالے چنانچہ نہ جانتا ہو کہ حلق تک پہونچے گی یا نہیں اور حلق تک پہونچانے کا قصد بھی نہ رہا ہو تو روزے کو باطل نہیں کرے گی ، لیکن اگر انسان پانی یا کسی اور چیز کا ناک کے ذریعے حلق اور معدے کی نلی میں داخل کرے تو پینا صدق كرے گا اور وزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ 1960: صرف تشنگی کا احساس یا کمزوری روز ہ ترک کرنے کا شرعی عذر نہیں ہے لیکن اگر انسان کی تشنگی یا کمزوری اتنی زیادہ ہے کہ جس کی وجہ سے اتنی زیادہ سختی میں پڑ رہا ہے جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے تو روزے کو ترک کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن ماہ رمضان میں احتیاط واجب کی بناپر لازم ہے کہ ضرورت بھر مقدارپر ( تشنگی یا کمزوری جو حد سے زیادہ ہے اسے برطرف کرنے کی مقدار اس وضاحت کے ساتھ جو پہلے بیان کی گئی) اکتفا کرے اور بقیہ دن ایسا کام انجام دینے سے جو روزے کو باطل کرتا ہے پرہیز کرے گرچہ اس کا روزہ ہر حال میں کھانے یا پینے سے باطل ہو جائے گا۔

لیکن جو شخص بیمار ہے اور مثلاً کڈنی (گردہ) میں پتھر ی کی بیماری میں مبتلا ہے اور روزہ اس کے لیے قابلِ توجہ ضرر رکھتا ہے لازم ہے کہ علاج کے لیے یا مرض میں شدت پیدا کرنے سے روکنے کے لیے دن میں زیادہ پانی پیے ، روزہ اس پر واجب نہیں ہے پانی پینا اس کے لیے جائز ہے اور واجب نہیں ہے کہ بقیہ دن ایسا کام کرنے سے جو روزے کو باطل کرتا ہے پرہیز کرے قابلِ ذکر ہے کہ اس مسئلے میں ذکر شدہ تمام احکام کھانا کھانے کے بارے میں بھی جاری ہوں گے۔

مسئلہ 1961:بچہ یا پرندے کے لیے غذا کا چبانا اور غذا کا چکھنا وغیرہ جب کہ انسان اُسے نگلنے کا قصد نہیں رکھتا اور معمولاً حلق تک نہیں پہونچتا ، گرچہ اتفاقاً پہونچ جائے روزے کو باطل نہیں کرتا، لیکن اگر انسان پہلے سے جانتا ہو کہ حلق تک پہونچ جائے گی اور پھر یہ کام جان بوجھ کر انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور قضا اور کفارہ اس پر واجب ہے۔

مسئلہ 1962: روزے دار کےلیے زیادہ مضمضہ (کلّی) کرنا مکروہ ہے اور اگر مضمضے کے بعد آب دہن کو نگلنا چاہتا ہو تو لازم ہے کہ وہ پانی۔ جو مضمضہ کے وقت منھ میں گیا ہے، اور اتنا کم بھی نہیں ہے کہ آب دہن میں مخلوط ہو کر نہ ہونے کے برابر ہو جائے۔ باہر نکالے اور بہتر ہے کہ تین مرتبہ آب دہن کو باہر نکالے گرچہ ایک دفعہ میں ہی وہ پانی منھ سے خارج ہو گیا ہو۔



2
۔ جماع

مسئلہ 1963: جماع (ہم بستری)روزے کو باطل کرتی ہے گرچہ صرف ختنہ گاہ کی مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔

مسئلہ 1964: اگر ختنہ گاہ کی مقدار سے کم داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن جو شخص ختنہ گاہ نہیں رکھتا اگر ختنہ گاہ کی مقدار سے کم بھی داخل ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ 1965: اگر جان بوجھ کر جماع کا قصد کرے اور شک کرے کہ ختنہ گاہ کی مقدار میں داخل ہو ا یا نہیں اس مسئلہ کا حکم مسئلہ نمبر 1943 كی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہو جائے گا اور ہر صورت میں اگر انسان ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 1966: اگر بھول جائے کہ روزہ ہے اور ہم بستری کرے یا اُسے جماع پر اس طرح سے مجبور کریں کہ اس کے اختیار سے خارج ہو جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگر ہم بستری کے دوران یاد آئے یا اس پر جَبر كرناختم كردیا جائے اور وہ مختار ہو جائے تو لازم ہے کہ فوراً ہم بستری کو ترک کرے اور اگر ترک نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔



3
۔ استمنا

مسئلہ 1967: اگر روزے دار استمنا کرے تو[177] اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ 1968: اگر انسان سے بے اختیار ہوكر منی خارج ہو تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا ۔

مسئلہ 1969: جب بھی روزے دار کو معلوم ہو کہ اگر سوئے گا تو محتلم ہو جائے گا یعنی نیند کی حالت میں اس سے منی خارج ہو جائے گی پھر بھی اس کے لیے سونا جائز ہے ؛ گرچہ نہ سونے کی وجہ سے زحمت میں نہ پڑے اور اگر محتلم ہو جائے تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔

مسئلہ 1970: اگر روزے دار منی خارج ہوتے وقت نیند سے بیدار ہو جائے تو واجب نہیں ہے کہ منی کے باہر آنے سے روکے۔

مسئلہ 1971: جو روزے دار محتلم ہوا ہے ، پیشاب کر سکتا ہے گرچہ جانتا ہو کہ منی کے بقیہ قطرات پیشاب کی نلی سے خارج ہوں گے۔

مسئلہ 1972: جو روزے دار محتلم ہوا ہے اگر جانتا ہو کہ منی کے قطرات پیشاب کی نلی میں باقی ہیں اور اگر غسل سے پہلے پیشاب نہ کرے تو غسل کے بعد اس سے منی خارج ہوگی تو احتیاط مستحب ہے کہ غسل سے پہلے پیشاب کرے۔

مسئلہ 1973: جو شخص جان بوجھ کر منی کے خارج کرنے کے قصد سے مثلاً اپنی بیوی کے ساتھ چھیڑ خانی کرے اور منی باہر نہ آئے اگر دوبارہ روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر روزے کی نیت کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ 1974: اگر روزے دار منی خارج کرنے کا قصد کئے بغیر مثلاً اپنی بیوی سے چھیڑخانی کرے چنانچہ یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ منی خارج نہیں ہوگی گرچہ اتفاقاً منی خارج ہوجائےتو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگر اطمینان نہ رکھتا ہو اور اس سے منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے۔







4
۔ احتیاط کی بنا پر خداوند متعال ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینا

مسئلہ 1975: اگر روزے دار کہنے ، لکھنے یا اشارے اور اس کے مانند دوسری چیز سے خداوند متعال ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف جان بوجھ کر ایسی نسبت دے جو جھوٹی ہو گرچہ فوراً کہے کہ جھوٹ بولا ہے یا توبہ کرے تو اس کا روزہ احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہے، اس بنا پر بطور مثال اگر ماہ رمضان کے روزے میں ایسا کرے احتیاط واجب کی بنا پر اس دن کا روزہ قربت مطلقہ [178]کی نیت سے تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے، اور اسی طرح كا حكم احتیاط مستحب كی بنا پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بقیہ پیغمبروں اور ان کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے كا ہے البتہ توجہ رہے کہ خداوند متعال ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور معصومین علیہم السلام من جملہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف جھوٹی نسبت دینا گناہان کبیرہ میں سے ہے۔

مسئلہ 1976: اگر روزے دار ایسی خبر دینا چاہتا ہو جس کے سچ ہونے پر معتبر دلیل نہیں ہے اور نہیں جانتا کہ سچ ہے یا جھوٹ، چنانچہ اسے نقل قول کی صورت میں کہے اور براہِ راست پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین کی طرف نسبت نہ دے تو اس کا روزہ صحیح ہے ورنہ احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ اس معنی میں جو گذشتہ مسئلے میں بیان ہوا ، باطل ہے۔

مسئلہ 1977: اگر کسی چیز کو سچ سمجھتے ہوئے خداوند متعال یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف نسبت دے اور بعد میں معلوم ہو کہ جھوٹ تھا تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

مسئلہ 1978: اگر ایسی چیز جسے جانتا ہے جھوٹ ہے خداوند متعال ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف نسبت دے اور بعد میں معلوم ہو جو کہا تھا سچ تھا اگر جانتا تھا کہ یہ کام روزے کو باطل کرتا ہے تو احتیاط واجب کی بنا پرلازم ہے کہ روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ 1979: اگر ایسا جھوٹ جسے کسی اور نے بنایا ہے جان بوجھ کر خداوند متعال یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف نسبت دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1975 میں بیان ہوا باطل ہو جائے گا لیکن اگر اس شخص کے قول کو نقل کرے جس نے جھوٹ بنایا ہے تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1980: اگر روزے دار سے سوال کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بات کہی ہے اور وہ جس جگہ جواب میں نہیں کہنا چاہیے جان بوجھ کر ہاں کہے یا جس جگہ ہاں کہنا چاہیے جان بوجھ کر نہیں کہے اس کا روزہ احتیاط واجب کی بناپر اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1975 میں ذکر کیا گیا باطل ہو جائےگا اور یہی حکم خداوندمتعال اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں بھی جاری ہے۔

مسئلہ 1981: اگر خدا وند متعال یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام کے قول سے کسی سچ بات کو نقل کرے اور پھر روزے کی حالت میں کہے کہ جھوٹ کہا تھا یا ان سے كوئی جھوٹی نسبت دے اور روزے کی حالت میں کہے کہ جو پہلے کہا ہے سچ ہے احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1975 میں بیان ہوا باطل ہو جائے گا، مگر یہ کہ اس کا مقصد اپنی خبر كا حال بیان کرنا ہو تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔[179]



5
۔ احتیاط کی بنا پر غلیظ غبار کا حلق تک پہونچانا

مسئلہ 1982: احتیاط واجب کی بنا پر غلیظ غبار کا حلق تک پہونچانا روزے کو باطل کرتا ہے، خواہ ایسی چیز کا غبار ہو جس کا کھانا حلال ہے جیسے آٹا، یا ایسی چیز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جیسے خاک اس بنا پر وہ روزے دار جو مثلاً ماہ رمضان کے روزے میں غلیظ غبار اپنی حلق تک پہونچائے لازم ہے کہ اس دن کا روزہ قربت مطلقہ [180]کی نیت سے تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ1983:احتیاط واجب کی بنا پر روزے دار سیگریٹ اور تنباکو اور اسی طرح کی بقیہ چیزوں کا دھواں اپنی حلق تک نہ پہونچائےاور اسی طرح بقیہ غلیظ دھویں کو حلق تک پہونچانے سے احتیاط واجب کی بنا پر پرہیز کرے۔

مسئلہ 1984: غیر غلیظ غبار کا حلق تک پہونچانا روزے کو باطل نہیں کرتا۔

مسئلہ 1985: پانی کا بخار روزے کو باطل نہیں کرتا گرچہ غلیظ ہو مگر یہ کہ منھ کی فضا میں جانے کے بعد پانی کے قطرات میں تبدیل ہو جائے اور روزے دار جان بوجھ کر اسے اندر لے جائے تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، مگر یہ کہ اتنا کم ہو کہ آب دہن میں مخلوط ہو کر نہ ہونے کے برابر ہو جائے۔

مسئلہ 1986: اگر ہوا یا طوفان کی وجہ سے غلیظ غبار پیدا ہو اور اس طرح ہو کہ معمولاً اگر رعایت نہ کریں تو حلق تک پہونچ جائے گا اور انسان متوجہ ہونے اور پرہیز کر سکنے کے باوجود پرہیز نہ کرے اور وہ غبار اس کے حلق تک پہونچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ اس وضاحت کے مطابق جو مسئلہ نمبر 1982 میں كی گئی ہے باطل ہو جائے گا ؛لیکن وہ گرد و غبار جو شدید ہوا اور طوفان کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور اس سے پرہیز کرنا معمولاً بہت زیادہ سخت ہے تو اس سے پرہیز کرنا ضروری نہیں ہے۔

مسئلہ 1987: اگر روزے دار پرہیز نہ کرے اور غبار دھواں اور اس کے مانند چیزیں اس کی حلق میں چلی جائیں چنانچہ یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ حلق تک نہیں پہونچے گا اس کا روزہ صحیح ہے اور یہی حکم ہے اگر گمان کر رہا ہو کہ حلق تک نہیں پہونچے گا اورا س لیے پرہیز نہیں کیا تھا ، لیکن احتیاط مستحب ہے کہ اس صورت میں روزے کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ 1988: اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور پرہیز نہ کرے یا بے اختیار طور پر غبار اور اس کے مانند چیزیں حلق تک پہونچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

مسئلہ 1989: استھما (دمہ) کا اسپرے جو سانس کی تنگی(روکنے) کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اگر دوا کو صرف پھیپھڑے میں داخل کرے اور دوا حلق کے بعد کی نلی میں جو معدے سے متصل ہے وارد نہ ہو تو روزہ باطل نہیں کرے گا۔



6
۔ اذان صبح تک حالت جنابت پر باقی رہنا

مسئلہ 1990: جو شخص مجنب ہے لازم ہے ماہ رمضان میں اذان صبح (طلوع فجر) سے پہلے غسل کرے یا چنانچہ اس کا وظیفہ تیمم ہے تو تیمم کرے اور جنابت پر باقی نہ رہے اور اس سے مربوط احکام کی وضاحت آئندہ مسائل میں كی جائے گی۔

مسئلہ 1991: اگر مجنب شخص جان بوجھ کر ماہ رمضان میں اذان صبح (طلوع فجر) تک غسل نہ کرے یا اگر اس کا وظیفہ تیمم ہے اور تیمم نہ کرے تو لازم ہے کہ اس دن کا روزہ احتیاط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ[181] کی نیت سے بجالائے پھر بعد میں بھی ایک دن روزہ رکھے کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ وہ بعد کا روزہ قضا ہے یا عقوبت(سزا) اس لیے اس دن بھی قربت مطلقہ کی نیت سے روزہ رکھے۔

مسئلہ 1992: ماہ رمضان میں اذان صبح (طلوع فجر) تک جنابت پر باقی رہنا اگر جان بوجھ کر نہ ہو تو حرج نہیں ہے اور اسی طرح ہے جو شخص اپنی حالتِ جنابت سے بے خبر ہو (یعنی مجنب ہونے کے موضوع سے بے خبر ہو نہ یہ کہ حکم نہ جانتا ہو) چنانچہ روزے کے دوران یا اس کے بعد متوجہ ہو کہ مجنب تھا اور اس حالت میں روزہ رکھا ہے اس کا روزہ صحیح ہے اور اسی طرح جو شخص جانتا تھا کہ مجنب ہے اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ اس کے اعضائے بدن پر کوئی مانع نہیں ہے غسل جنابت کیا ہو اور روزہ رکھا ہو اور پھر روزے کے دوران یا بعد میں متوجہ ہو کہ اس کے اعضائے بدن پر اتفاقاً کوئی مانع غسل کے وقت تھا یا کسی اور وجہ سے (موضوع کے جاہل ہونے سے) اس کا غسل باطل رہا ہو مثلاً یہ کہ اس کے لیے غسل قابلِ توجہ ضرر رکھتا تھا ،یا غسل کا پانی نجس تھا، اس کا روزہ صحیح ہے اور قضا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اس حال میں نماز پڑھی ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ 1993: جو شخص ماہ رمضان کے روزہ کی قضا رکھ رہا ہے اگر اذان صبح (طلوع فجر) تک جان بوجھ کر مجنب رہ جائے تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر جان بوجھ کر نہ ہو تو اس دن ماہ رمضان کے قضا روزے کی نیت کر سکتا ہے؛ گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس دن قضا روزہ نہ رکھے، مثال کے طور پر جو شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھنا چاہتا ہے اگر اذان صبح کے بعد نیند سے بیدار ہو اور خود کو محتلم پائے اور جانتا ہو کہ اذان صبح سے پہلے احتلام ہوا ہے تو اس دن ماہ رمضان کے قضا روزے کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس کام کو ترک کرے۔

مسئلہ 1994: مجنب شخص اگر جان بوجھ کر جنابت کی حالت میں نماز صبح (طلوع فجر) تک باقی رہے تو ماہ رمضان کے روزے اور اس کی قضا کے علاوہ کوئی بھی واجب یا مستحب روزہ رکھ سکتا ہے حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1995: اگر مجنب شخص ماہ رمضان میں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن بعد یاد آئے تو اس دن کے روزے کی قضا لازم ہے اور اگر چند دن بعدیاد آئے تو جتنے دن کے روزے کے بارے میں یقین ہے مجنب تھا لازم ہے کہ قضا کرے مثلاً اگر نہیں جانتا ہو کہ تین دن مجنب تھا یا چار دن تو لازم ہے کہ تین دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر اسی دن یاد آجائے تولازم ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ کی نیت سے تمام کرے، اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے اور اس مسئلے میں قضا سے مراد وہی معنی ہے جو مسئلہ نمبر 1991 میں ذکر کیا گیا ۔

قابلِ ذکر ہے کہ یہ حکم ماہ رمضان کے روزے سے مخصوص ہے اور بقیہ روزوں کو شامل نہیں کرتا۔

مسئلہ 1996: جو شخص ماہ رمضان کی رات میں غسل اور تیمم میں سے کسی کے لیے بھی وقت نہیں رکھتا اور وقت نہ ہونے کی طرف متوجہ بھی ہے، اگر خود کو مجنب کرے تو جان بوجھ کر جنابت پر باقی رہنے کا حکم رکھتا ہے جو مسئلہ نمبر 1991 میں ذکر کیا گیا۔

مسئلہ 1997: جو شخص جانتا ہے کہ غسل کرنے کے لیے وقت نہیں ہے بلکہ صرف تیمم کرنے کی مقدار میں وقت ہے اور خود کو مجنب کرے اور پھر بقیہ وقت میں تیمم کرے اس کا روزہ صحیح ہے، قابلِ ذکر ہے کہ اس کام کا حرام ہونا محل اشکال ہے۔

مسئلہ 1998: جو شخص ماہ رمضان میں مجنب ہوا ہو اور غسل کرنے کے لیے وقت ہو چنانچہ جان بوجھ کر غسل نہ کرے یہاں تک کہ وقت تنگ ہو جائے تولازم ہے کہ تیمم کرکے روزہ رکھے اور اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے گرچہ گناہگار ہے۔

مسئلہ 1999: اگر روزہ دار دن میں محتلم ہو جائے[182] تو فوراً غسل کرنا واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 2000: جس شخص نے میت کو مس کیا ہے یعنی اپنے بدن کے کسی حصے کو میت کے بدن سے لگایا ہے تو غسل مس میت کئے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت میں بھی میت کو مس کرے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

مسئلہ 2001: جو شخص ماہ رمضان کی رات میں مجنب ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کسی ایک میں بھی غسل کئے بغیر نہ سوئے:

الف: جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح تک بیدار نہیں ہوگا۔

ب: یقین یا اطمینان نہ رکھتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور اس حکم میں پہلی مرتبہ یا بعد كے چند دفعہ سونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

مسئلہ 2002: جو شخص مجنب ہے ماہ رمضان کی رات میں پہلی دفعہ جان بوجھ کر سوئے اور اذان صبح (طلوع فجر) تک بیدار نہ ہوتو اس روزے کا حکم مختلف صورت رکھتا ہے:

1
۔ یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور اس ارادے کے ساتھ کہ اٹھنے کے بعد غسل کرے گا سوجائے تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔

2
۔ بیدار ہونے کا اطمینان نہیں رکھتا لیکن معقول احتمال دے رہا ہو کہ بیدار ہو جائے گا:

الف: غسل کرنے کے ارادے کے ساتھ سویا ہو،

ب: اس چیز کی بہ نسبت کہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے متوجہ نہ ہو بلکہ غافل ہو تو ان دو صورتوں (الف و ب) میں لازم ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ کی نیت سے انجام دے اور اس کی قضا بھی اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1991 میں بیان ہوا بجالائے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ بھی دے۔

ج: آنے والے دن کا روزہ (یعنی جس رات میں سویا ہے اس کے آنے والے دن کا روزہ ) واجب ہونے کے بارے میں بھول گیا ہو اور مثلاً اذان صبح کے بعد متوجہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے اور لازم ہے کہ اس دن روزہ رکھے اس کا روزہ صحیح ہے، قضا بھی نہیں ہے۔

3
۔ جانتا ہو کہ اگر سو جائے تو اذان صبح(طلوع فجر) تک بیدار نہیں ہوگا ۔

4
۔ یقین رکھتا ہو یا احتمال دے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہو جائے گا لیکن بیدار ہونے کے بعد غسل نہیں کرنا چاہتا یا غسل کرنے كی بہ نسبت متردّد ہو:

ان دو صورتوں (3۔ 4) میں لازم ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ کی نیت سے انجام دے اور قضا (اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1991 میں بیان ہوا) اور کفارہ بھی واجب ہے۔

مسئلہ 2003: اگر مجنب ماہ رمضان کی شب میں سوئے اور بیدار ہو جائے اور یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ اگر دوبارہ سوئے تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور بیدار ہونے کے بعد غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو چنانچہ دوبارہ سوئے اور اذان صبح (طلوع فجر) سے پہلے بیدار نہ ہو تو لازم ہے کہ اس دن کا روزہ رکھے اور احتیاط واجب کی بنا پر اسے قربت مطلقہ کی نیت سے انجام دے اور پھر اس دن کے روزے کی قضا اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1991 میں بیان ہوئی بجالائے اور یہی حکم اس شخص کے لیے ہے(جو دوسری دفعہ خواب سے بیدار ہوا ہے اور تیسری دفعہ مذکورہ شرائط کے مطابق سویا ہے) بھی جاری ہوگا، البتہ اس صورت (تیسرے خواب) کے تمام مقامات میں اور پہلی صورت (دوسرےخواب) میں اگر بیدار ہونے کا احتمال دے رہا تھا لیکن اطمینان نہیں رکھتا تھا احتیاط مستحب ہے کہ کفارہ بھی دے۔

مسئلہ 2004: جس خواب میں احتلام ہو ا ہے اسے پہلا خواب شمار کریں گے، اس لیے اگر اس خواب سے بیدار ہونے کے بعد جس میں احتلام ہوا ہے دوبارہ سو جائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو جیسا کہ اس سے پہلے والے مسئلہ میں بیان ہوا ، اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 1991 میں بیان ہوا اس دن کے روزے کی قضا بجالائے۔

مسئلہ 2005: اگر ماہ رمضان میں وقت کی تنگی یا پانی کے مضر ہونے کے سبب مجنب شخص کا وظیفہ تیمم ہو تو واجب ہے کہ تیمم کرے، لیکن تیمم کرنے کے بعد لازم نہیں ہے کہ اذان صبح تک بیدار رہے بلکہ سو سکتا ہے۔



7
۔ عورت کا اذان صبح (طلوع فجر) تک حالت حیض یا نفاس پر باقی رہنا

مسئلہ 2006: جو عورت ماہ رمضان کی رات میں حیض یا نفاس سے پاک ہوگئی ہے ، تو اذان صبح (طلوع فجر) سے پہلے لازم ہے کہ غسل کرے یا اگر اس کا وظیفہ تیمم ہے تو لازم ہے کہ تیمم کرے اور روزے کی مختلف قسموں میں حیض اور نفاس کی حالت میں باقی رہنے کا حکم آئندہ مسائل میں بیان کیا جائے گا۔

مسئلہ 2007: اگر عورت ماہ رمضان کی شب میں اذان صبح سے پہلے حیض و نفاس سے پاک ہو جائے اور جان بوجھ کر غسل نہ کرے، یا اگر اس کا وظیفہ تیمم تھا تو تیمم نہ کرے تو اس دن کا روزہ تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ[183]کی نیت سے انجام دے اور پھر بعد میں اس دن کی قضا بھی بجالائے اور کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ وہ دوسرا روزہ قضا ہے یا عقوبت (سزا) اس دن کا روزہ بھی قربت مطلقہ کی نیت سے بجالائے۔

مسئلہ 2008: اگر ماہ رمضان میں حیض و نفاس کی حالت میں اذان صبح تک باقی رہنا عمداً نہ ہو تو حرج نہیں ہے اس بنا پر اگر عورت ماہ رمضان میں اذان صبح سے پہلے واقعاً پاک ہوگئی لیکن یہ یقین رکھتے ہوئے کہ پاک نہیں ہوئی ہے غسل نہ کرے اور اذان صبح کے بعد مثلاً سورج نکلنے سے پہلے متوجہ ہو تو لازم ہے کہ روزہ رکھے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔

مسئلہ 2009: ماہ رمضان کے روزے کی قضا میں اگر عورت جان بوجھ کر غسل اور تیمم کو ترک کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس دن قضا روزہ نہیں رکھ سکتی، چنانچہ جان بوجھ کر ایسا نہ کیا ہو تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 2010: ماہ رمضان اور اس کے قضا روزے کے علاوہ واجب یا مستحب روزے کی دوسری قسموں میں اگر عورت جان بوجھ کر غسل اور تیمم کو ترک کرے اور اذان صبح تک حیض و نفاس کی حالت پر باقی رہے تو حرج نہیں ہے اس دن روزہ رکھ سکتی ہے۔

مسئلہ 2011: اگر عورت ماہ رمضان میں اذان صبح سے پہلے حیض و نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لیے وقت نہ ہو تو اذان صبح سے پہلے تیمم کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے اور اسی طرح اگر وقت وسیع ہو لیکن پانی اس کےلیے ضرر رکھتا ہو تو اس کا وظیفہ تیمم ہے۔

مسئلہ 2012: وہ عورت جو ماہ رمضان کی رات میں حیض یا نفاس سے پاک ہو گئی ہے اگر جان بوجھ کر غسل نہ کرے یہاں تک کہ وقت تنگ ہو جائے تو لازم ہے کہ تیمم کرے اور اس کا روزہ اس صورت میں صحیح ہے۔

مسئلہ 2013: اگر عورت ماہ رمضان میں اذان صبح کے قریب حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل یا تیمم کے لیے وقت نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔

مسئلہ 2014: اگر عورت ماہ رمضان میں غسل حیض یا نفاس کو بھول جائے اور ایک یا چند دن بعد اُسے یاد آئے جو روزے رکھے تھےوہ صحیح ہیں اس بنا پر مسئلہ نمبر 1995 غسل حیض یا نفاس کو شامل نہیں کرے گا۔

مسئلہ 2015: اگر عورت ماہ رمضان میں اذان صبح (طلوع فجر) سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے لیکن سو جائے اور غسل کے انجام دینے میں کوتاہی کرتے ہوئے اذان صبح تک غسل نہ کرے اور وقت کے تنگ ہونے کے بعد تیمم بھی نہ کرے تو لازم ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر اسے قربت مطلقہ کی نیت سے انجام دے اور پھر اس دن کی قضا اس معنی میں جو مسئلہ نمبر 2007 میں ذکر کیا گیا بجالائے لیکن چنانچہ کوتاہی نہ کرے گرچہ تین مرتبہ سو جائے اور اذان صبح تک غسل نہ کرے اور تیمم کرنے میں کوتاہی نہ کرے اس کا روزہ صحیح ہے اس بنا پر مجنب کے وہ خاص احکام جو پہلے اور دوسرے اور اس سے زیادہ دفعہ خواب کے لیے بیان ہوئے حائض اور نفسا عورت کے بارے میں جاری نہیں ہوں گے۔

مسئلہ 2016: اگر عورت ماہ رمضان میں اذان صبح سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور اس کا وظیفہ وقت کی کمی یا پانی وغیرہ کے مضر ہونے کی وجہ سے تیمم ہو تو واجب ہے کہ تیمم کرے لیکن تیمم کرنے کے بعد لازم نہیں ہے کہ اذان صبح تک بیدار رہے بلکہ سو سکتی ہے۔

مسئلہ 2017: جو عورت استحاضہٴ کثیرہ کی حالت میں ہے گرچہ غسلوں کو اس تفصیل کے مطابق جو احکام استحاضہ میں بیان کی گئی نہ بجا لائے، اس کا روزہ صحیح ہے، اسی طرح استحاضۂ متوسطہ میں گرچہ غسل نہ کرے اس کا روزہ صحیح ہے البتہ احتیاط مستحب ہے کہ مستحاضہٴ متوسطہ یا کثیرہ روزانہ کے غسل کو انجام دے ۔[184]

8
۔ امالہ کرنا یا حقنہ لینا

مسئلہ 2018: سیّال چیز سے حُقنہ (انیما) گرچہ مجبوری اور علاج کی غرض سے ہو روزے کو باطل کرتا ہے لیکن جامد سے حقنہ (انیما) کرنا جیسے شیاف (suppository) روزے کو باطل نہیں کرتا مگر یہ کہ داخل کرتے وقت بدن کی گرمی سے سیال ہو جائے اور اندر نفوذ کرے لیکن اگر اسی مقام پر اس كی دواؤں كے اجزا بدن میں جذب ہو جائیں تو حرج نہیں ہے۔



9
۔ قے کرنا

مسئلہ 2019: اگر روزے دار جان بوجھ کر قے کرے گرچہ بیماری یازہر (پوائزن) وغیرہ نہ پھیلنے کےلیے ایسا کرنے پر مجبور ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا لیکن اگر بھول كر یا بے اختیار قے کرے تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 2020: اگر انسان رات میں ایسی چیز کھائے جس کے بارے میں جانتا ہو کہ اس کے کھانے سے دن میں بے اختیار قے کرے گاتو اس کا روزہ صحیح ہے۔

مسئلہ 2021: اگر روزے دار خود کو قے کرنے سے روک سکتا ہو چنانچہ خود بخود آجائے ، کہ عرفاً نہ کہیں کہ خود کو قے کرنے پر آمادہ کیا ہے تو اس کا روکنا واجب نہیں ہے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔

مسئلہ 2022: اگر کھانے کے اجزا یا کوئی دوسری چھوٹی چیز روزے دار کے گلے میں چلی جائے:

الف: چنانچہ اتنی مقدار میں نیچے چلی گئی ہو کہ اس کو نگلنے کو کھانا نہ کہا جائے تو اسے باہر لانا لازم نہیں ہے بلکہ لازم ہے کہ قے کرکے اسے باہر نہ لائے اور اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔

ب: اگر مذکورہ مقدار میں نیچے نہ گئی ہو اور اُسے نگلنے یا باہر نکالنے پر مجبور ہو تو لازم ہے کہ نہ نگلے، بلکہ واجب ہے کہ باہر لائے گرچہ اس کام کےلیے قے کرنے پر مجبور ہو مگر یہ کہ اس کے لیے قے کرنا ضرر رکھتا ہو یا معمول سے زیادہ سخت ہو جو معمولاً قابلِ تحمل نہیں ہے ، اور دونوں صورت (نگلنے اور قے کرنے) میں اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ 2023: اگر انسان بھول كر کسی چیز کو نگلے اور معدے تک پہونچنے سے پہلے اسے یاد آئے کہ روزے سے ہے چنانچہ حلق سے گزر کے اتنی نیچے چلی گئی ہو کہ اگر اسے معدے میں لے جائے اس پر کھانا صادق نہ آئے تو اس کا باہر نکالنا لازم نہیں ہے اس کا روزہ صحیح ہے۔

مسئلہ 2024: اگر روزے دار یقین رکھتا ہو کہ ڈكار لینے سے اس کے حلق سے کچھ باہر آئے گا چنانچہ اس طرح سے ہو کہ اس پر قے کرنا صدق كرے تو لازم ہے کہ جان بوجھ کرڈکار نہ لے، لیکن اگر یقین نہ ہو تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 2025: اگر انسان ڈكار لے اور اس کے حلق یا منھ میں کچھ آجائے تو لازم ہے کہ اسے باہر نکال دے اور اگر بے اختیار اندر چلا جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے چنانچہ جان بوجھ کر اسے اندر لے جائے احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، اس بنا پر چنانچہ بطور مثال ماہ رمضان کے روزے میں ایسا کرے تو لازم ہے کہ اس دن کے روزے کو قربت مطلقہ[185] کی نیت سے تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے اور احتیاط واجب کی بنا پر کفارہ بھی دے۔

[177] استمنا کا معنی مسئلہ نمبر 1950 میں ذکر کیا جا چكا ہے۔

[178] یعنی مخصوص واجب روزے کی نیت نہ کرے بلکہ مبطلات روزہ سے پرہیز کرے اور اس کام سے اس کا قصد مجموعی طور پر قربۃً الی اللہ ہو۔

[179] مثال کے طور پر ایک شخص شب میں کسی جلسے میں جھوٹ بات کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف نسبت دے اور دن میں جب وہ روزے سے ہے کوئی شخص اس سے سوال کرے: کیا صحیح ہے کہ آپ نے رات میں ایسی بات کہی ہے اور وہ جواب میں کہے کہ ہاں، صحیح ہے تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مقصد صرف واقعہ کے بارے میں خبر دینا ہے جو گذشتہ شب پیش آیا ہے، لیکن اگر روزہ کی حالت میں اس سے کوئی سوال کرے کیا جو کل رات میں آپ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف نسبت دی ہے، وہ سچ ہے یا جھوٹ اور وہ جواب میں کہے: ہاں جو نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف دی ہے سچ ہے تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

[180] یعنی مخصوص واجب روزے کی نیت نہ کرے، بلکہ مبطلات روزے سے پرہیز کرے اور اس کا قصد اس کام سے مجموعی طور پر قربۃ الی اللہ ہو۔

[181] یعنی مخصوص واجب روزے کی نیت نہ کرے، بلکہ مبطلات روزے سے پرہیز کرے اور اس کا قصد اس کام سے مجموعی طور پر قربۃً الی اللہ ہو۔

[182] یا کسی بھی طرح سے مجنب ہو اور اس کا روزہ صحیح ہو جیسے مسئلہ نمبر 1968 کے مقامات اور مسئلہ نمبر 1966 ،1974کے بعض مقامات۔

[183] یعنی مخصوص واجب روزے کی نیت نہ کرے، بلکہ مبطلات روزے سے پرہیز کرے اور اس کا قصد اس کام سے مجموعی طور پر قربۃ الی اللہ ہو۔

[184] یہ احتیاط مستحب روزے سے مربوط ہے لیکن نماز کے صحیح ہونے کے لیے ان غسلوں کا انجام دینا لازم ہے۔

[185] یعنی مخصوص واجب روزے کی نیت نہ کرے، بلکہ مبطلات روزے سے پرہیز کرے اور اس کا قصد اس کام سے مجموعی طور پر قربۃً الی اللہ ہو۔
مبطلات روزہ کے احکام ← → روزے کی نیت کے دوسرے احکام
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français