مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

بسم الله الرحمن الرحيم
آیت اللہ سیستانی کی رائےکے مطابق ہندوستان میں بدھ (10-4-2024) ماہ شوال کی پہلی اور عید سعید فطر ہے۔

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

امام جماعت کے شرائط سے متعلق بعض دوسرے احکام ← → نماز جماعت صحیح ہونے کے شرائط

امام جماعت کے شرائط

پہلی ، دوسری، تیسری، چوتھی شرط: بالغ، عاقل، حلال زادہ اور شیعہ اثنا عشری ہو
مسئلہ 1761: ایسے بچے کی اقتدا کرنا جس کے دس سال پورے ہو چکے ہیں احتمال رکھتا ہے کہ جائز ہو، لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کام کو ترک کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر غیر بالغ فرد کی غیر بالغ افراد کے لیے امامت کرنا صحیح نہیں ہے۔

پانچویں شرط: عادل ہو
مسئلہ 1762: ایسے امام جماعت کی اقتدا کرنا جو عادل نہ ہو اور اسی طرح جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ عادل ہے یا نہیں صحیح نہیں ہے اور عدالت یہ ہے کہ انسان واجبات کو انجام دے اور حرام کاموں کو ترک کرے اور اس کی علامت گفتار و رفتار و اعمال میں حسن ظاہر رکھتا ہو بشرطیکہ اس ظاہر کے خلاف انسان اطلاع نہ رکھتا ہو اور معنی عدالت کی کامل وضاحت اور اس کے ثابت ہونے کا طریقہ تقلید کی فصل مسئلہ نمبر 5 میں کی گئی ہے۔

چھٹی شرط: اس کی قرائت صحیح ہو
مسئلہ 1763: امام جماعت کی قرائت صحیح ہونی چاہیے اور نماز کے حمد و سورہ کو صحیح عربی میں پڑھے اس بنا پر ایسا ماموم جس کی قرائت صحیح ہے ایسے امام کی اقتدا کرے جس کی قرائت صحیح نہیں ہے گرچہ امام شرعی طور پر اپنے عمل میں معذور ہو جائز نہیں ہے۔
اسی طرح اگر امام اور ماموم دونوں کی قرائت صحیح نہ ہو اور جس کلمہ کو غلط تلفظ کر رہے ہیں دونوں کا ایک ہی کلمہ نہ ہو تو اقتدا صحیح نہیں ہے بلکہ اگر وہ کلمہ ایک ہی ہو پھر بھی احتیاط واجب کی بنا پر اقتدا صحیح نہیں ہے قابلِ ذکر ہے ایسے امام کی اقتدا کرنا جس کے حمد و سورہ کی قرائت صحیح نہیں ہے اور شرعاً اس کی اصلاح کرنے سے معذور ہے ان مقامات میں جہاں پر امام ماموم کی طرف سے حمد و سورہ نہیں پڑھتا حرج نہیں رکھتا؛ جیسے کہ ماموم امام کی دوسری رکعت کے رکوع میں یا تیسری اور چوتھی رکعت میں اقتدا کرے کہ قرائت کا محل گزر چکا ہے اسی طرح اس امام کی اقتدا کرنا جو رکوع یا سجود کے اذکار یا تشہد یا تسبیحات اربعہ وغیرہ کو نماز میں غلط پڑھے اور شرعاً اس کو صحیح کرنے سے معذور ہو حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 1764: اگر انسان امام جماعت کے حمد و سورہ کے صحیح ہونے میں شک رکھتا ہو احتیاط واجب کی بنا پر جس جگہ امام ماموم کی طرف سے حمد و سورہ پڑھتا ہے اقتدا نہیں کر سکتا جیسے پہلی اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے اقتدا کرے البتہ اگر معلوم ہو کہ امام جماعت کی قرائت صحیح ہے لیکن احتمال دے رہا ہو کہ بھول یا غلطی سے قرائت غلط پڑھے تو ا س احتمال کی پرواہ نہ کرے اس کی قرائت بھی صحیح سمجھی جائےگی اور اس کی اقتدا کر سکتا ہے۔

ساتویں شرط: اگر ماموم مرد ہو تو امام جماعت مرد ہو
مسئلہ 1765: عورتوں کا ایسے امام کی اقتدا کرنا جو مرد ہو حرج نہیں ہے لیکن عورت کے لیے مردوں کا امام جماعت بننا جائز نہیں ہے گرچہ مرد اس کا محرم ہی کیوں نہ ہوں۔

آٹھویں شرط: احتیاط واجب کی بناپر اس پر شرعی حد جاری نہ ہوئی ہو
مسئلہ 1766: احتیاط واجب کی بنا پر ایسے امام جماعت کی جس پر شرعی حد جاری ہوئی ہے اور توبہ کر لیا ہے اقتدا نہیں کر سکتے ہیں ۔

نویں شرط: اگر ماموم کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہے تو امام بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو
مسئلہ 1767: جو شخص کھڑا ہوکر نماز پڑھتا ہے ایسے شخص کی جو بیٹھ یا لیٹ کر نماز پڑھتا ہے اقتدا نہیں کر سکتا اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے ایسے شخص کی جولیٹ کر نماز پڑھتا ہے اقتدا نہیں کر سکتا لیکن جس ماموم کا وظیفہ بیٹھ کر نما زپڑھنا ہے اس کے لیے ایسے امام جماعت کی اقتدا کرنا جو کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے حرج نہیں ہے ۔
مسئلہ 1768: جو شخص لیٹ کر نماز پڑھتا ہے احتیاط واجب کی بنا پر اس کی اقتدا کرنا صحیح نہیں ہے خواہ امام کھڑا ہو یا بیٹھا، لیٹا ہو۔

دسویں شرط: اس کا اور ماموم کا قبلہ ایک ہو
مسئلہ 1769: جو شخص یقین رکھتا ہے کہ قبلہ فلاں جہت میں ہے ایسے امام کی اقتدا نہیں کر سکتا جس کا یقین یہ ہو کہ قبلہ دوسری جہت میں ہے مگر یہ کہ دونوں جہت میں اختلاف کم اور ناچیز ہو کہ عرفاً جماعت صدق كرے تو اس صورت میں اقتدا کرنا حرج نہیں ہے ۔

گیارہویں شرط: امام کی نماز ماموم کی نظر میں صحیح ہو
مسئلہ 1770: اس شرط کی تفصیل اور جزئیات مفصل کتابوں میں ذکر کی گئی ہے جن کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض مقامات میں اقتدا صحیح ہے اور بعض مقامات میں اقتدا صحیح نہیں ہے یہاں پر چند مثالوں کو ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے:
الف: اگر امام کی ہتھیلی میں کوئی مانع ہو جو کسی بھی عنوان سے دور نہیں ہو سکتا اور امام کیونکہ خود مجتہد ہے یا اپنے مجتہد کے نظریہ کے مطابق یقین رکھتا ہے اس کا وظیفہ وضوئے جبیرہ، یا غسل جبیرہ ہے لیکن ماموم اپنے اجتہاد یا تقلید کی بنیاد پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا وظیفہ تیمم ہے اس صورت میں ماموم ایسے امام کی جو وضو یا غسل جبیرہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے اقتدا نہیں کر سکتا۔
ب: اگر ماموم جانتا ہو کہ جس پانی سے امام نے وضوء کیا ہے نجس ہے لیکن امام اسے پاک سمجھتا ہے اس صورت میں اس کی اقتدا جائز نہیں ہے کیونکہ نجس پانی سے وضو کرنا گرچہ اس کی نجاست سے جاہل ہو وضو اور نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔
ج: اگر ماموم کو معلوم ہو کہ امام با وضونہیں ہے گرچہ خود امام متوجہ نہ ہو پھر بھی اس کی اقتدا نہیں کر سکتا۔
د: اگر ماموم متوجہ ہو کہ امام کا لباس نجس ہے لیکن امام اپنے لباس کے نجس ہونے کی اطلاع نہ رکھتا ہو اس صورت میں اس کی اقتدا کرنا حرج نہیں ہے اور ماموم پر لازم نہیں ہے کہ امام جماعت کو اطلاع دے ۔
مسئلہ 1771: اگر امام جماعت کسی عذر کی وجہ سے نجس بدن یا لباس یا تیمم کے ساتھ نماز پڑھے یا وضوئے جبیرہ کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے البتہ امام اور ماموم کا اس عذر کے بارے میں اجتہادی یا تقلیدی نظریہ فرق رکھتا ہو تو گذشتہ مسئلہ کی تفصیلات یہاں پر جاری ہوں گی۔
امام جماعت کے شرائط سے متعلق بعض دوسرے احکام ← → نماز جماعت صحیح ہونے کے شرائط
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français