مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

سوال و جواب » تلاش کریں (احتیاط مستحب)

۱۱ سوال: احتیاط واجب اور احتیاط مستحب کی صورت میں کیا کسی دوسرے مرجع کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے؟
جواب: احتیاط واجب میں دوسرے اعلم مرجع کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ احتیاط مستحب میں رجوع نہیں ہے۔
تقلید
۱۲ سوال: الف۔ اگرکوئی ماہ مبارک رمضان میں جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کرے جس سے اسکی منی نکل جائے تو کیا اسے ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے؟ ب۔ سینے کے بلغم کو اندر لے جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: االف۔ اگر یہ جانتا تھا کہ اس کام سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور جاہل مقصر و مشکوک کے لیے بھی یہی حکم ہے اور کفارہ یہ ہے کہ ۶۰ روز روزہ رکھے یا ۶۰ فقیر کو کھانا کھلائے یا انہیں ۷۵۰ گرام آٹا ہا گیہوں دے۔
روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن احتیاط مستحب ہیکہ اندر نہ لے جاۓ۔
روزہ
۱۳ سوال: سر اور سینے کے بل‏غم کا اندر لے جانا کیسا ہے؟
جواب: سر اور سینے کا بلغم جب تک منھ میں نہ آۓ اس کو اندر لے جانا ہرج نہیں ہے، لیکن اگر منھ میں آجاۓ تو احتیاط مستحب ہے کہ اندر نہ لے جاۓ۔
روزہ
۱۴ سوال: اگر کوئی شخص سفر میں مسئلہ نہ جاننے کی بنا پر یا غلطی سے نماز پوری پڑھ لے یا بر عکس تو اسکی نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب: اماکن اربعہ (چار مخصوص مقامات) کے علاوہ حالت سفر میں چار رکعتی نمازوں کو قصر پڑھنا واجب ہے،اس طرح سے کہ انکی پہلی دو رکعتوں پر اکتفاء کیا جائے،لیکن اگرکوئی حالتِ سفر میں تمام ادا کرلے تو اگر وہ مسئلے کو جانتا تھا تو نماز باطل ہوگی اوراعادہ یا قضا کرنا واجب ہے۔
اگر مسئلے سے بالکل ہی جاہل تھا اس طرح کہ وہ مسافر کے لیے حکم قصر اور اسکی مشروعیت کو بھی نہ جانتا ہو تو نہ اعادہ ہے اور نہ ہی قضا واجب ہے،
البتہ اگر اصل حکم کو جانتا تھا مگر بعض خصوصیات سے جاہل تھا کہ جن کی وجہ سے نماز قصر ہوتی ہے،مثلا( جیسا کہ کسی شھر میں دس دن اقامت کرے تو مسافر کا حکم نھیں رکھتا،یا جیسا کہ سفر معصیت میں اگر مسافر اطاعت گزار ہوجا‎ۓ تو اسکی نماز سفر میں قصر ہوجاتی ہے،یا اسی طرح کے دوسرے امور)۔ تو اگر وہ ان باتوں کو نماز کا وقت ہوتے ہوۓ ہی جان لے تو (احوط) یہ ہے کہ نماز کا اعادہ کرے، اور وقت کے بعد معلوم ہوتو بعید نہیں کہ قضاء واجب نہ ہو!
اگر ایسا انسان موضوع قصر(مسافت شرعیہ)سے جاہل ہو یعنی نہ جانتا ہو کہ جو فاصلہ اسکا مقصود ہے وہ مسافت شرعی ہے یا نہیں اس صورت میں تمام نماز پڑھے اور پھر پتہ چلے کہ یہ فاصلہ تو موجب قصر تھا،،یا اگر وہ خود مسافر ہونے ہی کو بھول گیا تھا یا یہ بھول گیا ہو کہ مسافر کا حکم قصر ہوتا ہے اور اسی خیال میں نمازتمام پڑھ لے، تو اگر اسکو وقت میں ہی معلوم ہوجاۓ یا یاد آجائے تو اعادہ کرنا ہوگا۔
لیکن اگر وقت نماز ختم ہونے کے بعد معلوم ہو یا اسے یاد آجاے تو (ظاہر) یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے۔
جن امور کو ذکر کیا گیا ہے ان میں روزے کا حکم نماز ہی کی طرح ہے لہذا حالت سفر میں جان بوجھ کر سفر میں روزہ رکہنا باطل ہے،اور نہ جاننے کی صورت میں صحیح ہے،چاھے اصل حکم سے جاہل ہو یا خصوصیات حکم سے جاہل ہو یا موضوع سفر سے جاہل ہو۔
جس شخص کی ذمہ داری تمام ہو اگر وہ قصر کر لے تو بہر صورت و بغیر کسی فرق کے نماز باطل ہو جاۓگی، چاہے وہ عمدا ایسا کرے یا جاہل ہو یا نسیان یا خطا کی وجہ سے ایسا کرے۔ ہاں البتہ دس دن کی اقامت رکھنے والا مسافر اگریہ بات نہ جانتے ہوے کہ اسکی نماز تمام ہوگی قصر پڑھے اور پھر اسکو مسئلے کا علم ہو تو(احتیاط واجب) کی بنا پر اعادہ کرنا ہوگا۔
جس وقت نماز کا وقت داخل ہو اورانسان حاضر ہو (یعنی سفر میں نہ ہو) اور نماز اداء کرنے سے پہلے ہی سفر پر نکل جائے حتی کے حد ترخص سے خارج ہوجائے اور ابھی نماز کا وقت باقی ہو تو اب اسکو موجودہ حالت کے لحاظ سے قصر نماز پڑھنی ہوگی۔ جیسا کہ اگر اسنے سفر میں نماز نہ پڑھی ہو اور وقت ختم ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے تو اب اسے تمام نماز ادا کرنی ہوگی۔غرض یہ کہ مدار زمان ادایگی نماز ہے نہ کے وقت وجوب نماز۔
اگر حالت حضر (غیر سفر) میں نماز فوت ہوجائے تو اسکی قضا تمام ہی ہوگی چاہے قضا کی انجام دہی کے وقت وہ سفر میں ہو،اسی طرح اگر حالت سفر میں نماز فوت ہوئی ہو تو اسکی قضا قصر ہی ہوگی چاہے اسے وطن میں ہی ادا کرے، البتہ اگر اول وقت نماز میں تو حاضر ہو مگر آخر وقت میں مسافر ہو جائے یا اس کے بر عکس ہو تو قضاء کے مسئلے میں حالت فوت کو دیکھا جائے گا،یعنی نماز پڑھتے وقت کو دیکھا جائے گا۔غرض یہ کہ پہلی صورت میں اسکا حکم قصر ہوگا جبکہ دوسری صورت میں تمام پڑھے گا۔
مسافر کو چار جگہوں میں قصر و تمام کے دوران اختیار حاصل ہے: (۱۔مکہ معظمہ، ۲۔مدینہ منورہ،۳۔کوفہ مقدسہ اور ۴۔حرم امام حسینع) پس وہ مسافر جس کو قصر پڑھنی ہو وہ ان چار جگہوں میں قصر کے بجائے تمام پڑھ سکتا ہے بلکہ تمام پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے اگرچہ قصر ہی پڑھنا احتیاط سے قریب تر ہے۔
علما نے حکم تخییر کو تین ۳ جگہوں(مکہ،مدینہ،کوفہ) میں ان کی مسجدوں ہی سے مخصوص کیا ہے،جبکہ بعید نہیں کہ ان ۳ شہروں میں یہ حکم مطلقا (یعنی خارج مسجد پورے شہر) میں ثابت ہو،حالآنکہ مسجدوں تک ہی مخصوص رکھنا احوط ہے۔ البتہ حرم امام حسین ع میں قصر و تمام کے مسئلے میں (ظاہرا) یہ حکم قبر مطھر کے احاطے میں ہر طرف سے ۲۵ ذراع (ہاتھ) کی مقدار تک ہی ہے کہ جس میں رواق کا بعض حصہ بھی شامل ہوگا جبکہ پچہلی طرف سے مسجد کا بعض حصہ خارج ہوجائے گا۔
ان اماکن اربعہ میں حکم تخییر کا ثابت ہونا کوئی فرق نہیں رکہتا چاہے انکی زمین پر ہو یا اوپر کی منزلوں پر ہو یا زیر زمین منزل میں ہو جیسا کہ مسجد کوفہ میں بیت طشت (زیر زمین ہوا کرتا تھا)۔
مذکورہ حکم تخییرمیں روزہ، نماز سے ملحق نہیں ہوگا پس مسافر جسکا حکم قصر ہے وہ ان چار جگہوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتا اور حکمِ تخییر استمراری ہے یعنی اگر نماز کو قصر کی نیت سے شروع کردے تب بھی دوران نماز تمام کی طرف نیت بدلنے کا اختیار باقی رہتا ہے اور اسی طرح اسکے برعکس بھی۔
حکمِ تخییر چار مخصوص مقامات کے سوا باقی ہر جگہ جاری نہیں ہوتا۔
مسافر کے لیے مستحب ہے کہ وہ ہر نماز قصر کے بعد ۳۰ بار(سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر) پڑھے۔
حکم تخییر نمازِ اداء کے لیے مخصوص ہے، قضا نمازوں میں یہ حکم جاری نہیں ہے۔
نماز ۔ احکام مسافر
۱۵ سوال: نماز آیات کیا ہے؟
جواب: واجب نمازوں میں سے ایک نماز آیات ہے جو کہ حائض اور نفساء کے علاوہ ہر مکلف پر سورج گرھن،چاند گرھن میں( چاہے جزئی ہوں) واجب ہے۔اور اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر زلزلہ کے وقت بھی واجب ہے، جبکہ ہر مخوف سماوی (آیت سماوی کہ جس سے اکثر افراد خوفزدہ ہوجائیں جیسا کہ سیاہ یا سرخ یا زرد آندھی اور شدید اندھیرہ چھا جانا، بجلی کی گرج، یاآسمانی آگ کا ظاہر ہونا) بلکہ ہر مخوف ارضی میں بھی جیسا کہ زمین کا دہنس جانا یا پہاڑوں کا گر جانا یا اس کہ علاوہ جو بھی خوف زدہ کرنے والے علامات ہوں۔ تو احوط اولیٰ (مستحب)یہ ہے کہ ان حالات میں بھی پڑھی جائے۔
نماز آيات
۱۶ سوال: مستحب قربانی کے بارے میں کیا احکام و مستحبات ہیں؟
جواب: ۱- جو افراد قربانی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے اس مستحب کو انجام دینے کی تاکید ہے۔
۲- اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کے پیسے ہوں لیکن جانور مہیا نہ کر سکتا ہو تو اس کی قیمت صدقہ میں دینا مستحب ہے-
۳- انسان اپنے اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ایک جانور قربانی کر سکتا ہے-
۴- دو یا اس سے زیادہ افراد کا شریک ہو کر قربانی کرنا صحیح ہے، بالخصوص اگر جانور کم ہو اور اس کی قیمت زیادہ ہو-
۵- قربانی کا بہترین وقت عید قربان کے دن سورج نکلنے اور نماز عید کی مقدار وقت  گذرنے کے بعد ہوتا ہے-
۶- وہ افراد جو منی میں ہیں ان کے لے چار دن تک قربانی کرنا مستحب ہے، اور جو منی میں نہیں ہیں ان کے لیے تین دن تک مستحب ہے، گر چہ احتیاط مستحب ہے کہ عید قربان کے دن ہی قربانی کریں-
۷- قربانی کا جانور اونٹ، گاے یا بھیڑ ( بکرا) ہونا چاہیےاور احتیاط واجب کی بنا پر پانچ سال سے کم کا اونٹ، دو سال سے کم کی گاے اور بکرا، اور سات مہینے سے کم کی بھیڑ کافی نہیں ہے-
۸- مستحب قربانی میں وہ شرائط و صفات واجب نہیں ہیں جو واجب قربانی میں شرط ہیں ۔پس کانا، لنگڑا کان کٹا یا سینگ ٹوٹا،خصی،یا لاغر جانور کی قربانی دینا جایز ہے۔ اگرچہ احوط(احتیاط سے قریب تر) اور افضل یہ ہے کہ اسکے اجزاء سلامت ہوں اور موٹا ہو، اور مکروہ ہے اپنے پالتو جانور ہی کی قربانی کی جائے۔
۹- بیمار، کمزور اور عیب دار جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے-
۱۰- قربانی کے گوشت کا ایک حصہ خود کے لیے رکھے، اور ایک حصہ مسلمان کو دے اور احتیاط مستحب ہے تیسرا حصہ غریب مسلمانوں کو صدقہ دے-
۱۱- قربانی کی کھال صدقہ کے طور پر دینا مستحب ہے، قصاب کو اجرت کے طور پر دینا مکروہ ہے-
۱۲- قربانی کرنے والے شخص کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے۔
۱۳- میت کے لیے رجاء کی نیت سے قربانی کر سکتے ہیں
۱۴- ایک جانور دو یا چند لوگوں کے لیے قربانی کر سکتے ہیں۔
مستحب قربانی کے احکام
۱۷ سوال: سجدہ سہو کن چیزوں کے لیے انجام دیا جاۓ۔
جواب: ضروری ہے کہ انسان سلام نماز کے بعد پانچ چیزوں کے لئے اس طریقے کے مطابق جس کا آئندہ ذکر ہوگا دو سجدے سہو بجالائے:
۱۔ نماز کی حالت میں سہواً کلام کرنا۔
۲۔ جہاں سلام نماز نہ کہنا چاہئے وہاں سلام کہنا۔ مثلاً بھول کر پہلی رکعت میں سلام پڑھنا۔
۳۔ تشہد بھول جانا۔
۴۔ چار رکعتی نماز میں دوسری سجدے کے دوران شک کرنا کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ، یا شک کرنا کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں یا چھ، بالکل اسی طرح جیسا کہ صحیح شکوک کے نمبر ۴ میں گزر چکا ہے۔
ان پانچ صورتوں میں اگر نماز پر صحیح ہونے کا حکم ہو تو احتیاط کی بنا پر پہلی، دوسری اور پانچویں صورت میں اور اقوی کی بنا پر تیسری اور چوتھی صورت میں دو سجدہ سہو ادا کرنا ضروری ہے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ایک سجدہ بھول جائے جہاں کھڑا ہونا ضروری ہو مثلاً الحمد اور سورہ پڑھتے وقت وہاں غلطی سے بیٹھ جائے یا جہاں بیٹھنا ضروری ہو مثلا تشہد پڑھتے وقت وہاں غلطی سے کھڑا ہو جائے تو دو سجدہ سہو ادا کرے بلکہ ہر اس چیز کے لئے جو غلطی سے نماز میں کم یا زیادہ ہو جائے دو سجدہ سہو کر ان چند صورتوں کے احکام آئند مسائل میں بیان ہوں گے۔
سجدہ سہو
۱۸ سوال: سجدہ سہو کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ سلام نماز کے بعد انسان فوراً سجدہ سہو کی نیت کرے اور احتیاط لازم کی بنا پر پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھ دے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدہ سہو میں ذکر پڑھے اور بہتر ہے کہ کہے : "بِسمِ اللہَ وَبِاللہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرکَاتُہ" اس کے بعد اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اور دوبارہ سجدے میں جائے اور مذکورہ ذکر پڑھے اور بیٹھ جائے اور تشہد کے بعد کہے اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور اَولیٰ یہ ہے کہ "وَرَحمۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ" کا اضافہ کرے۔
سجدہ سہو
۱۹ سوال: جب بھی میں قرآن کی سجدے والی آیت کو سنوں تو مجھے کیا پڑھنا چاہیئے؟
جواب: در حقیقت واجب سجدے والی آیات قرآن میں صرف چار ہیں جو کہ ان چار سوروں میں ہیں (السجدہ) ،(فصلت) ،(النجم ) اور (العلق) جبکہ انکہ علاوہ باقی آیات سجدہ میں سجدہ کرنا مستحب ہے ۔
اور سجدہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نیت ہو، اور بنا بر احتیاط سجدہ انہی چیزوں پر ہو جن پر واجب سجدے کرنا صحیح ہے۔ دیگر یہ مستحب ہے کہ سجدے میں ذکر بھی پڑھا جائے جیسا کہ نماز کہ سجدے میں پڑھا جاتا ہے۔ اگر سجدے کی آیت کو ریڈیو ، ٹی وی سے (غیر مباشر) یا ریکارڈنگ سےسنا جائے تو واجب نہیں ہے البتہ
اگر( براہ راست ) قارئ سے سنا ہو تو سجدہ کرنا واجب ہے۔ جبکہ سنتے وقت کچھ سننے کا قصد بھی ہو نہ یہ کہ بغیر قصد کہ کچھ آوازیں کان میں پڑ رہی ہوں ۔
آیات سجدہ
۲۰ سوال: نماز آیات کیا ہے؟
جواب: واجب نمازوں میں سے ایک نماز آیات ہے جو کہ حائض اور نفساء کے علاوہ ہر مکلف پر سورج گرھن،چاند گرھن میں( چاہے جزئی ہوں) واجب ہے۔اور اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر زلزلہ کے وقت بھی واجب ہے، جبکہ ہر مخوف سماوی (آیت سماوی کہ جس سے اکثر افراد خوفزدہ ہوجائیں جیسا کہ سیاہ یا سرخ یا زرد آندھی اور شدید اندھیرہ چھا جانا، بجلی کی گرج، یاآسمانی آگ کا ظاہر ہونا) بلکہ ہر مخوف ارضی میں بھی جیسا کہ زمین کا دہنس جانا یا پہاڑوں کا گر جانا یا اس کہ علاوہ جو بھی خوف زدہ کرنے والے علامات ہوں۔ تو احوط اولیٰ (مستحب)یہ ہے کہ ان حالات میں بھی پڑھی جائے۔
سورج گرھن
نیا سوال بھیجنے کے لیے یہاں کلیک کریں
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français