مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

خمس نہ دئے ہوئے مال میں تصرف کرنا ← → مطالبات

دست گردان (دوبارہ واپس کرنا ) اور قاعدہٴ ربع

(وہ مال جس كا خمس دینا باقی ہے)
مسئلہ 2369: بعض مقامات میں خمس حساب کرتے وقت اگر انسان ایک پنجم مال کی مقدار خمس ادا کرے تو وہ مال مكمل طور پر مخمّس نہیں ہوگا بلکہ چہار پنجم مال مخمّس ہوگا اور اس صورت میں کبھی لازم ہے کہ آئندہ سال باقی ایک پنجم مال کا خمس ادا کرے حکم کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے، وہ مال جو انسان خمس کے طور پر ادا کر رہا ہے چند صورت رکھتا ہے:

الف: انسان کا قصد ہے کہ خمس کو اسی مال سے جس پر خمس واجب ہو اہے ادا کرے مثلاً پیسہ ہے جس کا خمس اسی پیسے میں سے ادا کرنا چاہتا ہے یا مثلاً چاول ہے اور اس کا خمس اسی چاول سے ادا کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں مال کو کامل مخمّس کرنے کے لیے اس میں سے ایک پنجم دینا کافی ہے۔

ب: انسان کا قصد یہ ہو کہ اس مال کے علاوہ جس پر خمس واجب ہے کسی دوسرے مال سے اس کا خمس ادا کرے لیکن وہ دوسرا مال اسی سال کی در آمد میں سے ہے اور اس پر سال گزر چکا ہے مثلاً کتابوں کا خمس اسی سال کی در آمد سے جس پر سال گزر گیا ہے ادا کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں بھی کتابوں کی قیمت اور تمام درآمد جس پر سال گزر گیا سب کا ایک پنجم خمس ادا کرنا کافی ہے۔[271]

ج: انسان کا قصد ہو کہ اپنے مال کا خمس دوسرے مخمّس یا حکم مخمّس مال سے ادا کرے تو اس صورت میں بھی ایک پنجم ادا کرنا مال کو مكمل طور پر مخمّس کرتا ہے۔

د: انسان کا قصد ہو کہ اپنے مال کا خمس آئندہ سال کے دوران درآمد سے ادا کرے اس صورت میں اگر وہ مال یا اس کا بدل نئے سال کے آخر تک تلف نہ ہو، اور اخراجات میں خرچ نہ ہو چنانچہ اس کا قصد ہو کہ اپنے مال کو مكمل طور پر مخمّس کرے تو لازم ہے کہ ایک چہارم ادا کرے[272] لیکن اگر وہ مال نئے سال میں تلف ہو جائے یا اخراجات میں خرچ ہو جائے تو ایک پنجم ادا کرنا کافی ہے۔

مثلاً کسی شخص کے 1394 ؁شمسی (ایرانی سال) خمس کی تاریخ پر اس کی کتابوں پر خمس واجب ہو اور وہ 1395؁ شمسی سال کی درآمد سے کتابوں کا خمس ادا کرنا چاہتا ہے چنانچہ یہ شخص کتابوں کی قیمت کا ایک چہارم ادا کرے تو کتابیں مكمل طور پر مخمّس ہو جائے گی، اور اگر اس کا ایک پنجم خمس ادا کرے چنانچہ کتابیں 1395 ؁شمسی سال میں تلف یا استعمال میں آجائیں تو ان کے خمس كی بہ نسبت کوئی نیا وظیفہ نہیں رکھتا اور اگر کتابیں 1395؁ شمسی سال کے خمس کی تاریخ تک بغیر استعمال کے رہ جائیں تو کتابوں کے ایک پنجم حصے کا خمس ادا کرے، قابلِ ذکر ہے کہ مال کا مكمل طور پر مخمّس کرنا واجب نہیں ہے بلکہ اختیار رکھتا ہے اس بنا پر اگر انسان پہلے سال کے خمس کی تاریخ پر ایک پنجم خمس ادا کرے اور نئے سال کے خمس کی تاریخ تک اگر وہ مال اخراجات میں خرچ تلف نہ ہو تو ایک پنجم حصے کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ 2370: اگر انسان نقدی طور پر فوراً خمس ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو اور ایسا کرنا حد سے زیادہ سختی کا باعث ہو جو قابلِ تحمل نہیں ہے تو حاکم شرع یا اس کے نمائندہ كو اجازت ہے کہ اس خمس کو جو مشاع (مشتركہ) طور پر اس کے مال میں موجود ہے، اسی مقدار کو اس کے ذمے میں مصالحہ کرے یا اسے دست گردان (لے کر واپس) کرے تاکہ خمس اس کے مال سے اس کے ذمے میں منتقل ہو جائے اور اس کے مال میں تصرف جائز ہو جائے لیکن انسان اپنے اس قرض کو (جو خمس کی شکل میں ہے) اپنی توانائی کو مدّنظر رکھتے ہوئے بغیر کوتاہی اور تاخیر کے ادا کرے اور اسی طرح اگر انسان قسط وار خمس کو ادا کر سکتا ہو تو لازم ہے کہ مصالحہ یا دست گردان کرنے کے بعد قسطوں کو بغیر تاخیر كے ادا کرے۔

قابلِ ذکر ہے کہ اگر انسان اپنے مال کا خمس بغیر زیادہ سختی میں پڑے ہوئے فوراً ادا کر سکتا ہے تو خمس کے ادا کرنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ 2371: اگر حاکم شرع یا اس کا وکیل خمس کو اسی مقدار رقم سے اس کے ذمے میں مصالحہ کرے یا دست گردان (لے کر واپس ) کرے تو اگر وہ شخص اس خمس کو آنے والے سال کی درآمد سے ادا کرے تو مسئلہ نمبر 2369 میں سے (د) والی قسم اس کے شامل حال ہوگی اس بنا پر:

الف: اگر وہ مال یعنی گذشتہ سال کی در آمدکا ایک پنجم یا اس کا بدل موجود ہو اور اخراجات میں خرچ بھی نہ ہوا ہو تو نئے سال کی در آمد سے شمار ہوگا، چنانچہ یہ مال نئے سال کے خمس کی تاریخ تک باقی رہے اور اخراجات میں خرچ نہ ہو تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔

ب: لیکن اگر وہ مال یا اس کا بدل تلف ہو جائے یا اخراجات میں خرچ ہو گیا ہو تو انسان جو مال نئے سال کی در آمد سے خمس کے عنوان سے دے رہا ہے اخراجات میں سے شمار ہوگا اس پر خمس نہیں ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ چنانچہ انسان اگلے سال میں اپنا دست گردان شدہ (جو خمس مرجع یا اس کے وکیل نے لے کر واپس کردیا)قرض ادا نہ کر پائے تو مذکورہ ایک پنجم نئے سال کی در آمد میں سے شمار نہیں ہوگا اور اس پر خمس نہیں ہے ۔[273] اور جس سال بھی دست گردان شدہ قرض کو اسی سال کی درآمد سے ادا کرے وہ ایک پنجم اسی سال کی در آمد ہے ، چنانچہ اصل مال (مثلاً وہ سامان جس کے خمس کو دست گردان کیا تھا) اس سال کے آخر تک تلف یا اخراجات میں خرچ نہ ہو تو لازم ہے کہ ایک پنجم کا خمس ادا کرے۔ [274]


[271] مثال کے طور پر اگرکتابوں کی قیمت دس ہزار تومان ہو اور اس کے پاس ایک لاکھ تومان جس كا سال بھر گزر چكا ہو پیسہ ركھتا ہو تو وہ اس ایک لاکھ میں سے 22 ہزار تومان کتاب اور پیسے کو کامل مخمس کرنے کے لیے ادا کرے گا۔

[272] كیونكہ ایک پنجم خمس ادا کرنے کے بعد وہ مال نئے سال کی درآمد میں شمار ہوگا کہ اس کے خمس کو نئے سال کے خمس کی تاریخ پر حساب کرے۔

[273] البتہ اگر مذکورہ مال، تجارت کا مال ہو تو اس کی قیمت میں اضافے کا حکم 2336 سے 2340 کے مسائل میں بیان کیا گیا۔

[274] اگر دست گردان کے قرض کا کچھ حصہ اسی سال اور کچھ حصہ اگلے سال ادا کرے تو اس کے حساب سے محاسبہ کرے گا۔
خمس نہ دئے ہوئے مال میں تصرف کرنا ← → مطالبات
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français