مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

سوانح حیات


بسم الله الرحمن الرحیم


ولادت

حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی یکم ربیع الاول سن ۱۳۴۹ہجری قمری میں شہر مشہد مقدس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے اپنے جد کے نام پر آپ کا نام علی رکھا آپ کے والد محترم کا نام سید محمد باقر اوردادا کا نام سید علی ہے، وہ ایک بہت بڑے عالم اور زاہد انسان تھے ان کے زندگی نامہ کو مرحوم آقا بزرگ تہرانی نے طبقات علماء شیعہ نامی کتاب کے چوتھے حصہ میں صفحہ نمبر۱۴۳۲پرذکرکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ نجف اشرف میں مولاعلی نہاوندی اورسامرہ میں مجدد شیرازی کے شاگردوں میں تھے اوربعد میں وہ مرحوم سید اسماعیل صدرکے خاص شاگردوں میں رہے۔ سن ۱۳۰۸ہجری میں مشہد مقدس لوٹ آئے اور وہی سکونت اختیارکرلی مرحوم شیخ محمد رضا آل یاسین ان کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔
آپ کے خاندان کا تعلق حسینی سادات سے ہے، یہ خاندان صفوی دورمیں اصفہان میں رہتا تھا جب آپ کے پردادا سید محمد کو، سلطان حسین صفوی نے سیستان میں شیخ الاسلام کا عہدہ سپرد کیا تو وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ وہیں جاکر بس گئے۔
سید محمد کے پوتے، سید علی، جو آپ کے دادا ہیں انہوں نے وہاں سے مشہد مقدس کی طرف ہجرت کی اوروہاں مرحوم محمد باقرسبزواری کے مدرسہ میں رہنے لگے بعد میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں سے نجف اشرف چلے گئے۔
آیت اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) نے پانچ سال کی عمرمیں اپنی تعلیم کا آغازقرآن کریم سے کیا اور لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لئے دارالتعلیم نامی ایک دینی مدرسہ میں داخلہ لیا، اسی دوران آپ نے استاد مرزا علی آقا ظالم سے کتابت سیکھی۔
سن ۱۳۶۰ ہجری میں اپنے والد بزرگوار کے حکم سے دینی تعلیم شروع کی اورعربی ادب کی کچھ کتابیں جیسے شرح الفیہ ابن مالک ،مغنی ابن ہشام، مطول تفتازانی، مقامامت حریری اورشرح نظام، مرحوم ادیب نیشاپوری اوردوسرے استادوں سے پڑھیں اورشرح لمعہ وقوانین مرحوم سید احمد یزدی جو نہنگ کے لقب سے مشہورتھے، سے پڑھیں۔ مکاسب ورسائل اورکفایہ جیسی کتابیں جلیل القدرعالم دین شیخ ہاشم قزوینی سے پڑھیں۔ فلسفہ کی کچھ کتابیں جیسے منظومہ سبزواری وشرح اشراق اوراسفار استاد یاسین سے پڑھیں اورشوارق الالہام شیخ مجتبی قزوینی کے پاس پڑھی۔ موصوف نے علامہ محقق مرزا مہدی اصفہانی، متوفی۱۳۶۵ہجری، سے بہت زیادہ کسب فیض کیا۔ اسی طرح مرزا مہدی آشتیانی اورمرزا ہاشم قزوینی سے بھی کافی استفادہ کیا۔ مقدمات وسطوح سے فارغ ہونے کے بعد کچھ استادوں کے پاس علوم عقلیہ اورمعارف الہیہ میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد سن ۱۳۶8ہجری میں مشہد مقدس سے شہر قم کی طرف ہجرت کی اوربزرگ مرجع تقلید آیة اللہ العظمی بروجردی کے فقہ واصول کے درس خارج میں شریک ہوکرعلمی فیض حاصل کیا۔ موصوف نے ان کی فقہی بصارت، مخصوصا علم رجال اورحدیث سے بہت زیادہ کسب فیض کیا، اسی طرح موصوف نے فقیہہ وعالم فاضل سید حجت کہکمری اوراس زمانے کے دوسرے مشہورعلماء کے درسوں میں بھی شرکت کی۔
موصوف نے قم کے قیام کے دوران مرحوم سید علی بہبہانی (جواھوازکے جلیل القدرعالم دین اورمرجع محقق شیخ ہادی تہرانی کے تابعین میں سے تھے) سے قبلہ کے مسائل کے سلسلہ میں کافی خط وکتابت کی، آپ اپنے خطوں میں مرحوم محقق تہرانی کے نظریوں پراعتراض کرتے تھے اور مرحوم بہبھانی اپنے استاد کا دفاع کرتے تھے یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتا رہا یہاں تک کہ مرحوم بہبہانی نے آپ کوشکریہ کا خط لکھا اورآپ کی کافی تعریف کی اور یہ طے پایا کہ باقی بحث مشہد مقدس میں ملاقات کے موقع پر ہوگی۔
سن ۱۳۷۱ ھجری میں آپ نے قم سے نجف اشرف کا سفرکیا اورامام حسین علیہ السلام کے چہلم کے دن کربلا میں وارد ہوئے۔ پھروہاں سے نجف چلے گئے۔ نجف پہنچ کرمدرسہ بخارائی میں قیام کیا اورآیة اللہ العظمی خوئی، شیخ حسین حلی جیسے بزرگ مراجع اکرام کے فقہ واصول کے دروس میں شرکت کی، اسی طرح موصوف آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ شاہرودی جیسے بزرگ علماء کے درسوں میں بھی شریک ہوئے۔
جب سن ۱۳8۰ھجری میں آپ نے مستقل قیام کی نیت سے اپنے وطن مشہد مقدس واپس آنے کا ارادہ کیا تو اس وقت آیة اللہ العظمی خوئی اورشیخ حسین حلی نے آپ کو اجتہاد کا اجازہ لکھ کردیا،اسی طرح مشہورمحدث آقا بزرگ تہرانی نے رجال اورحدیث میں موصوف کے تبحرعلمی کی کتبی تصدیق کی۔
موصوف سن ۱۳8۱ ھجری میں دوبارہ نجف تشریف لے گئے اور وہاں شیخ انصاری کی کتاب مکاسب سے فقہ ک ادرس خارج کہنا شروع کردیا۔ اس کے بع دشرح عروة الوثقی سے کتاب طہارت اورصلاة کی تدریس کی اورجب سن ۱۴۱8 ھجری میں کتاب صوم تمام ہوئی تو آپ نے کتاب الاعتقاد کی تدریس شروع کی۔
اسی طرح اس عرصہ میں آپ نے مختلف موضوعات جیسے کتاب القضا، کتاب الرباء، قاعدہ الزام، قاعدہ تقیہ وغیرہ پرفقہی بحث کی، آپ نے اس دوران علم رجال پربھی بحث کی، جس میں ابن ابی عمیرکی مرسلہ روایتوں کے اعتبار اور شرح مشیخة التہذیبین پربحث ہوئی۔
موصوف نے سن ۱۳8۴ھجری میں شعبان کے مہینہ سے علم اصول کا درس دینا شروع کیا اورآپ کے درس خارج کاتیسرا دورہ سن۱۴۱۱ ھجری کے شعبان ماہ میں تمام ہوا۔ سن 1397ھجری سے آج تک کے، آپ کے فقہ واصول کے تمام درسوں کے آڈیو کیسٹ موجود ہیں۔ آج کل آپ کا (شعبان ۱۴۲۳ھجری) شرح عروة الوثقی کی کتاب الزکواة کا درس خارج چل رہا ہے۔

علمی کارنامے

حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) ہمیشہ اپنے استادوں کے درسوں میں اپنی بے پناہ ذہانت وصلاحیتوں کا ثبوت دیا کرتے تھے اورہمیشہ ہی تمام شاگردوں میں ممتاز رہتے تھے۔ آپ اپنے علمی اعتراضوں، حضورذہن، تحقیق، فقہ ورجال کے مسائل کے مطالعہ، دائمی علمی کاوشوں اورمختلف علمی نظریوں سے آشنائی کے بل بوتے پرحوزہ میں اپنی مہارت کا ثبوت پیش کرتے رہتے تھے۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ آپ کے اورشیہد صدر(قدس سرہ) کے درمیان علمی کارناموں کے سلسلہ میں مقابلہ رہا کرتا تھا۔ اس بات کا اندازہ آپ کے دونوں استادوں، آیة اللہ خوئی(رضوان اللہ تعالی علیہ) اورعلامہ حسین حلی (قدس سرہ) کے اجازہ اجتہاد سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ آیة اللہ خوئی (قدس سرہ) نے ایة اللہ العظمی سیستانی (دام ظلہ) اورآیة اللہ شیخ علی فلسفی (جوکہ مشہد مقدس کے مشہورعلماء میں سے ہیں) کے علاوہ اپنے شاگردوں میں سے کسی کو بھی کتبی اجازہ نہیں دیا۔ اسی طرح اپنے زمانے کے شیخ المحدثین علامہ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے لیے سن1380 ھجری قمری میں جو اجازہ لکھا ہے اس میں آپ کی مہارت اورعلم رجال اورحدیث میں آپ کی درایت کو کافی سراہا ہے آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے لیے یہ اس وقت لکھا تھا جب موصوف کی عمرصرف ۳۱سال تھی۔

تالیفات اور فکری کارنامے

تقریبا ۲۴سال پہلے،آپ نے فقہ، اصول اور رجال کا درس خارج کہنا شروع کیا اور اسی طرح مکاسب کی کتاب الطہارت، صلاة،قضا، خمس اوردوسرے قواعد فقہی جیسے ربا، تقیہ اورقاعدہ الزام کو پورا کیا، آپ اصول کی تدریس کے تین دورہ ختم کرچکے ہیں، جس میں کی کچھ بحثیں جیسے اصول عملی، تعادل وتراجیح اورکچھ فقہی بحثیں جیسے ابواب نماز، قاعدہ تقیہ والزام چھپائی کے لے تیار ہے ۔حوزہ کے کچھ مشہور علماء و فضلاء نے، جن میں سے بعض درس خارج بھی کہتے ہیں، جیسے علامہ شیخ مہدی مروارید، علامہ سید مرتضی مہری، علامہ سید حسین حبیب حسینیان، سید مرتضی اصفہانی، علامہ سید احمد مددی، علامہ شیخ باقرایروانی اورحوزہ علمیہ کے کچھ دوسرے استادوں، آپ کی بحثوں پرتحقیق کی ہے۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی (دام ظلہ) نے درس دینے کے ساتھ ساتھ کچھ اہم کتابوں اور رسالوں کی تصنیف و تالیف بھی ہے۔ اسی طرح آپ نے، اپنے استادوں کی تمام تقریرات کو بھی تالیف کیا ہے۔

درس و بحث کا طریقہ

آپ کے درس دینے کا طریقہ حوزہ کے دوسرے استادوں اور درس خارج کہنے والوں سے الگ ہے، جیسے آپ کے اصول کے درس کی خصوصیت ذیل میں بیان کی جا رہی ہے:

۱۔ بحث کی تاریخ کا ذکر:
اصول کی شناخت اوراس کی بنیادی چیزیں، جو شاید ایک فلسفی مسلہ ہے جیسے سہولت و آسانی"مشتق" اوراس کے ترکیبات ہوں یا عقیدتی و سیاسی، جسیے تعادل و تراجیح کی بحث، جس میں آپ نے بیان کیا ہے کہ حدیثوں کا اختلاف ، اس زمانے کے فکری اورعقائدی جھگڑوں، کشمکشوں اور ائمہ کے زمانے کے سیاسی حالات کا نتیجہ تھا اس بارے میں تھوڑی سی تاریخی معلومات بھی ہمیں اس مسئلہ کے افکار و نظریوں کے حقیقی پہلوؤں تک پہنچا دیتی ہے۔

۲۔ حوزوی اورجدید فکرکا سنگم:
کتاب کفایة کے مؤلف نے، معانی الفاظ کی بحث کے ضمن میں، معانی الفاظ کے بارے میں اپنے نظریات کو جدید فلسفی نظریہ کے تحت، جس کا نام ”نظریہ تکثرادراکی“ ہے اورجو انسانی ذہن کی استعداد و خلاقیت پرمبنی ہے، بیان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ انسان کا ذہن ایک بات کو دو الگ الگ شکلوں میں تصورکرسکتا ہے: ایک کو مستقل طور پ ردقت و وضاحت کے ساتھ، اسے اسم کہا جاتا ہے اوردوسرے کوغیرمستقل طور پر کسی دوسری چیز کی مدد سے اسے حرف کہتے ہیں، اور جب ”مشتق“ کی بحث شروع کرتے ہیں توآپ زمان کو اس فلسفہ کی نظر سے دیکھتے ہیں جو مغربی دنیا میں رائج ہے اور اس بارے میں بھی اظہارخیال کرتے ہیں کہ زمان کو مکان سے روشنی اور اندھیروں کے لحاظ سے الگ کیا جانا چاہئے، صیغہ امراور تجری کی بحث میں سوشیالیسٹ کے نظریوں کو ذکر کرتے ہیں۔ جن کا ماننا ہے کہ بندے کی سزا کا معیاراللہ کی نافرمانی ہے اوریہ حالت پرانے انسانی سماج کی طبقہ بندی اور تقسیم بندی پر ہے جس میں آقا، غلام، بڑے ، چھوٹے…… کا فرق پایا جاتا تھا۔ درحقیقت یہ نظریہ اس پرانے سماج کے باقیات میں سے ہے جو طبقاتی نظام پرمبنی تھا، نہ کہ اس قانونی نظام پر جس میں عام انسان کے فائدوں کی بات کی جاتی ہے۔

۳۔ ان اصول کا اہتمام جو فقہ سے مربوط ہیں :
لہذا ایک طالب علم بھی علماء کی دقیق اور پیچیدہ فقہی بحثوں کو، جن کا کوئی علمی اور فکری نتیجہ نہیں ہوتا، دیکھ سکتاہے جیسے وہ بحثیں جو وضع کے بارے میں کی جاتی ہیں کہ کیا وضع ایک امرتکوینی ہے یا اعتباری، یا ایک ایسا امر ہے جو تعہد و تخصیص سے متعلق ہے، یا وہ بحثیں جوعلم کے موضوع اورعلم کے موضوع کی تعریف کے ذاتی عوارض کے بارے میں ہوتی ہیں اورانہیں جیسی کچھ دیگرچیزیں جو بیان کی جاتی ہیں، لیکن جو کچھ آیة اللہ العظمی سیستانی کے درسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ موصوف محکم اورمضبوط علمی مبنا کوحاصل کرنے کے لیے سخت محنت و زحمت کرتے ہیں خاص طور پر روش استنباط اور اصول کی بحثوں میں، جیسے اصول عملی، تعادل وتراجیح، عام و خاص وغیرہ کے متعلق جو بحثیں ہیں۔

۴۔ جدت:
حوزہ کے بہت سے استادوں میں تخلیق کا فن نہیں پایا جاتا ہے لہذا وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کتاب یا رسالہ پرتعلیقہ یا حاشیہ لکھے، بجائے اس کے کہ اس پربحث کریں، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے استاد صرف موجودہ استادوں کے نظریوں پر بحث کرتے ہیں یا ”ففہم“ یا اس شکل پردواشکال وارد ہوتے ہیں اوران دواشکالوں میں غورکرنا چاہئے، جیسی عبارتوں میں مشغول کرلیتے ہیں۔

۵۔ مشرکوں کے ساتھ نکاح جائز ہے:
آیة اللہ سیستانی اس قاعدہ کو جیسے قاعدہ ”تزاحم“ کہتے ہیں اور جسے فقہاء و اصولین صرف ایک عقلی، عقلائی قاعدہ مانتے ہیں، قاعدہ اضطرار کے ضمن میں جو ایک شرعی قاعدہ ہے اوراس کے بارے میں بہت سی نصوص کا ذکر ہوا ہے، جیسے (ہر وہ چیز جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے، اسے ہی مضطر کے لیے حلال کیا ہے) کو حلال جانتے ہیں لہذا قاعدہ اضطراراصل میں وہی قاعدہ تزاحم ہے، یا یہ کی فقہاء و اصولین بہت سے قاعدوں کو فضول میں طول دیتے ہیں جیسے جو کچھ قاعدہ لا تعاد میں دیکھنے میں آتا ہے کہ فقہاء اسے نص کی وجہ سے نماز میں سے مخصوص مانتے ہیں جبکہ آیة اللہ سیستانی اس حدیث ” لا تعاد الصلاة الامن خمس“ کو مصداق کبری مانتے ہیں جو نماز اور بہت سے مختلف واجبات کو شامل ہے اور یہ کبری روایت کے آخرمیں موجود ہے، ولا تنقض السنة الفریضہ لہذا جو کچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ نمازمیں بھی اور اس کے علاوہ بھی واجبات سنت پرترجیح رکھتے ہیں جیسے ترجیح وقت وقبلہ، اس لیے کہ وقت اور قبلہ واجبات میں سے ہے نہ کہ سنت سے۔

۶۔ اجتماعی نظر:
کچھ فقہاء ایسے ہیں جومتن کا تحت اللفظی ترجمہ کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ وہ وسیع معنی کو بیان کرنے کے بجائے خود کو متن کے حروف کا پابند بنا لیتے ہیں۔ کچھ دوسرے فقہاء ان حالات پربحث کرتے ہیں جس میں وہ متن کہا گیا ہے تاکہ ان باتوں سے آگاہ ہو سکیں جن کی وجہ سے اس متن پراثرہوا ہے، جیسے اگر پیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث پرغور و فکر کریں جس میں آپ نے (خیبرکی جنگ میں) پالتو گدھے کے گوشت کو حرام قراردیا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ فقہاء اس حدیث کے ایک ایک حرف پرعمل کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس حدیث کے مطابق پالتو گدھے کے گوشت کو حرام قراردیتے ہیں، جبکہ ہمیں ان حالات پربھی توجہ دینی چاہئے جن میں یہ حدیث بیان کی گئی تھی تا کہ پیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث کوبیان کرنے کے اصلی اوربنیادی مقصد تک پہنچا جا سکے اوروہ یہ ہے کہ خیبرکے یہودیوں کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان کی سخت ضرورت تھی جبکہ اس زمانے میں جس میں مسلمانوں کے حالات اچھے نہیں تھے اوراسلحہ کو ڈھونے کے لیے چار پایوں کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا اس لیے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد ایک حکومتی پابندی تھی جس میں ایک ایسی مصلحت تھی جس کی ان دنوں ضرورت تھی، اس لیے اس طرح کا حکم صادر ہوا لہذا اس حدیث کو حکم یا حلال و حرام کے طور پر نہیں لینا چاہئے۔

۷۔ استنباط میں علم و درایت کا ہونا:
آیة اللہ العظمی سیستانی کا نطریہ یہ ہے کہ ایک فقیہ کوعربی زبان اور قواعد میں ماہر ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ عربی نثر و نظم اورحقیقت و مجاز کے استعمال سے بھی مکمل طور پر واقف ہونا چاہئے تا کہ متن کو موضوع کے اعتبار سے سمجھ سکے، اسی طرح اہلبیت علیہم السلام کی حدیثوں اوران کے راویوں پر پوری طرح سے تسلط ہونا چاہئے اس لیے کہ علم رجال کی معرفت ہرمجتہد کے لیے واجب و ضروری ہے۔ اسی طرح آپ کے کچھ نظریے ایسے ہیں جو منحصر بہ فرد ہیں اورمشہورسے کافی مختلف ہیں، جیسے ابن غزائری اور ان کی کتاب کے بارے میں موصوف کی رائے مشہور سے مختلف ہے آپ کی نظرمیں وہ کتاب ابن غزائری کی ہی ہے اورغزائری، نجاشی اورشیخ وغیرہ سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ آپ کا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی حدیث کو مسند یا مرسل قراردینے اور راوی کی شخصیت کو معین کرنے کے لیے، طبقات کی روش پراعتماد کرنا چاہئے اور یہی روش مرحوم آیة اللہ بروجردی کی بھی تھی۔
آپ کا یہ بھی ماننا ہے کہ فقیہ کو حدیث کی کتابوں، نسخوں کے اختلافوں، حدیث کو صحیح سمجھنے کے لحاظ سے مؤلف کے حالات اور جس روش کو مؤلف یا راوی نے اپنایا ہے اس سے آگاہی ضروری ہے۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ شیخ صدوق حدیثوں و روایتوں کو نقل کرنے میں دوسروں سے زیادہ دقت کرتے تھے، بلکہ وہ شیخ صدوق کو کتابوں اور قرینوں کی وجہ سے ایک امین اورقابل اعتماد ناقل حدیث مانتے ہیں جبکہ آپ نے اور شہید صدر نے اس بارے میں کافی محنت و زحمت کی ہے اور ہمیشہ خلاقیت کا ثبوت دیتے رہے ہیں، اور جب آیة اللہ سیستانی ”تعادل و”تراجیح“ کی بحث میں وارد ہوتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس بحث کا راز احادیث کے اختلاف میں پوشیدہ ہے لہذا اگر ہم متون شرعی کے اختلاف کی وجہوں پر بحث کریں تو یہ بڑی اور حل نہ ہونے والی مشکل بھی حل ہو سکتی ہے، تب ہم دیکھیں گے کہ ”ترجیح“ و تغیر“ کی وہ روایتیں جنہیں صاحب کفایة، استحباب پرحمل کرتے ہیں، ہم ہم ان سے بے نیاز ہیں۔ شہید صدر نے بھی اس بارے میں بحث کی ہے لیکن انہوں نے تاریخی و حدیثی شواہد کو بنیاد نہیں بنایا ہے بلکہ صرف عقل کو بنیاد بناتے ہوئے، اختلاف کو حل کرنے کے لئے کچھ اہم قاعدوں کو پیش کیا ہے۔

۸۔ مختلف مکتبوں کے درمیان مقایسہ:
ہم سب جانتے ہیں کہ اکثراساتذہ ایک مکتب یا عقیدہ کو نظر میں رکھ کر کسی موضوع کی تحقیق یا مطالعہ کرتے ہیں، لیکن آیة اللہ سیستانی کی روش اس سے مختلف ہے۔ مثلا جب وہ کسی موضوع پرتحقیق کرتے ہیں توحوزہ مشہد و حوزہ قم اور حوزہ نجف اشرف کے درمیان مقایسہ کرتے ہیں۔ وہ مرزا مہدی اصفہانی (قدس سرہ) جومشہد مقدس کے ایک مشہور عالم ہیں، آیة اللہ بروجردی (قدس سرہ)، جو حوزہ علمیہ قم کی فکرکا سمبل ہیں اور اسی طرح حوزہ علمیہ نجف کے مشہورمحققوں جیسے آیة اللہ خوئی اورشیخ حسین حلی (قدس سرہما) کے نظریوں کو ایک ساتھ بیان کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر اس طرح بحث ہوتی ہے تو اس کے سارے گوشے اور نکتے ہمارے سامنے اچھی طرح واضح ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی فقہی روش میں بھی چند خوبیاں پائی جاتی ہیں جوحسب ذیل ہیں:
۱۔ شیعہ اور دیگر مذاہب کی فقہ کے درمیان مقایسہ:
اس لیے کہ اس زمانے میں، ہمارا اہل سنت کے فقہی افکار سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، جیسے موتا مالک اور خراج ابو یوسف اوراس جیسی دوسری کتابوں سے، تا کہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے آئمہ کے مقصد اور اس کے بارے میں اہل سنت کے نظریہ کو سمجھا جا سکے۔
۲۔ کچھ فقہی بحثوں میں، دورحاضرکے قوانین کا سہارا:
جیسے کتاب بیع و خیارات کی بحث میں، کچھ فقہی مناسبتوں کی وجہ سے عراق، مصر اورفرانس کے قانون کا سہارا لیتے ہیں۔ اس لئے کہ اس زمانے کے قانون کے اسلوب کو جاننے کے بعد انسان کو بہت سے تجربے حاصل ہوتے ہیں، جب دور حاضر کے قانون کے ذریعے فقہی قواعد کی تحلیل کی جاتی ہے اور ان دونوں میں مطابقت پیدا کی جاتی ہے تو بحث کے تمام اہم نکتے روشن ہو جاتے ہیں۔
۳۔ ہمارے اکثرعلماء ان فقہی قاعدوں پر ج وبزرگوں سے ہم تک پہنچے ہیں، کوئی رد و بدل نہیں کرتے ہیں:
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیة اللہ سیستانی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فقہی قواعد میں تبدیلی لائی جائے جیسے قاعدہ ”الزام“، جسے کچھ فقہاء قاعدہ ”مصلحت“ کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ اس قاعدہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ اپنے ذاتی فائدوں کے لیے کبھی کسی دوسرے اسلامی مسلک کے قوانین کی اتباع کر سکتے ہیں (چاہے وہ قوانین اس کے اصلی مسلک کے مخالف ہی ہو) لیکن آیة اللہ سیستانی اس کوقبول نہیں کرتے۔ بلکہ وہ مذہب اور اس کے قوانین کو دوسرے مذاہب سے زیادہ لائق احترام و ضروری سمجھتے ہیں جیسے یہ قاعدہ ”لکل قوم نکاح“ یعنی ہرمذہب میں نکاح اورشادی کی اپنی مخصوص رسمیں ہوتی ہیں۔

آیة اللہ سیستانی (دام ظلہ) کی شخصیت کی خصوصیتیں

آپ سے ملاقات کرنے والے حضرات، جلدی ہی آپ کی ممتازاورآیڈیل شخصیت کو سمجھ جاتے ہیں آپ کی شخصیت کی ان ہی خوبیوں نے آپ کو ایک مکمل نمونہ عمل اورعالم ربانی بنا دیا ہے۔ آپ کے فضائل اوراخلاق کے کچھ نمونہ جن کا میں نے نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے، انہیں یہاں بیان کر رہا ہوں:

۱۔ دوسروں کی رائے کا احترام
چونکہ آپ علم کے شیدائی ہیں اورمعرفت و حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیشہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہمیشہ کوئ نا کوئ کتاب رہتی ہے۔ وہ کبھی بھی مطالعہ، تحقیق، بحث اورعلماء کے نظریات کو نظراندازنہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ غیر معروف علماء کے نظریات کو بھی پڑھتے ہیں اور ان پرتحقیق بھی کرتے ہیں۔ یہ روش اس بات کی علامت ہے کہ آیة اللہ سیستانی دوسروں کی رائے کے لیے خاص توجہ اور احترام کے قائل ہیں۔

۲۔ بات چیت میں ادب و احترام کا لحاظ:
جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ طلباء کے درمیان جو مباحثے ہوتے ہیں یا ایک طالب علم اور استاد کے درمیان جو بحث ہوتی ہے، خاص طور پر حوزہ نجف میں، وہ نہایت ہی سخت و گرم ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ چیزطلباء کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی بحث و گفتگو میں ہمیشہ سختی و گرمی کا ہون اصحیح نہیں ہے۔ یہ ہرگز کسی صحیح علمی مقصد تک نہیں پہنچاتی ، وقت کی بربادی کے علاوہ طلباء میں مذاکرہ کے جذبہ کو بھی ختم کردیتی ہے۔ اسی وجہ سے جب آیة اللہ سیستانی اپنے شاگردوں کو درس دیتے ہیں یا ان سے بحث کرتے ہیں تو اس بحث کی بنیاد ایک دوسرے کی عزت و احترام پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کےاحترام کا خاص خیال رکھتے ہیں چاہے ان کے سامنے جو بحث ہو رہی ہو وہ کمزور اور بے بنیاد ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کی ایک دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو جو جواب دیتے ہیں ، اس کو دہراتے ہیں تا کہ وہ، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ لیکن اگرسوال کرنے والا اپنے نظریہ کے بارے میں ضد کرتا ہے تو آپ خاموش رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔

۳۔ تربیت:
تدریس، پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ اسی لئے ایک اچھے، مہربان اورشفیق استاد کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کی اچھی تربیت کرے اورانہیں ایسے بلند علمی مقام تک پہنچائے جہاں سے ترقی کے موقع فراہم ہوں۔ اور ان ساری باتوں کا لازمہ محبت ہے۔ لیکن اچھے اور برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ لاپروا اورغیرذمہ دارہوتے ہیں، وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نھیں ہے جو مخلص، ہمدرد، مہربان اورسمجھدار ہوتے ہیں اورجن کا اصلی مقصد تدریس کی ذمہ داریوں کو اچھی طرح ادا کرنا ہوتا ہے ۔
یہاں پریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ خوئی دونوں ہی ہمیشہ بہترین اخلاق کا نمونہ رہے ہیں اورجوکچھ میں نے آیة اللہ سیستانی کی زندگی میں دیکھا، وہ وہی ان کے استادوں والا اخلاق ہے۔ وہ اپنے شاگردوں سے ہمیشہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ درس ختم ہو جانے کے بعد ان سے سوال کریں، حضرت آیة اللہ سیستانی ہمیشہ اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ اپنے استادوں اورعالموں کااحترام کرو اور بحث و سوالات کے وقت ان کے ساتھ نہایت ادب سے پیش آؤ۔ وہ ہمیشہ اپنے استادوں کےکردار کی بلندی کے قصہ سناتے رہتے ہیں۔

۴۔ تقوی اور پرہیزگاری:
نجف کے کچھ علماء خودکو لڑائی جھگڑوں اور شکوے شکایتوں سے دور رکھتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اسے حقیقت سے بچنا اور فرارکرنا مانتے ہیں یا اسے ڈراور کمزوری سمجھتے ہیں۔ لیکن اگراس مسئلہ کو دوسرے نکتہ نظرسے دیکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مثبت امرہی نہیں، بلکہ بہت سی جگہوں پرضروری اورمہم بھی ہے۔ لیکن اگروہی علماء احساس کریں کہ امت اسلامی یا حوزہ، کسی خطرہ میں پڑگیا ہے تو یقینا وہ بھی میدان میں کود پڑیں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہرعالم کو سخت اور حساس موقعوں پراپنے علم کا اظہار کرنا چاہئے۔
ایک اہم نکتہ جسے یہاں پرذہن میں رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ آیة اللہ سیستانی فتنوں اور بلوں کے موقعوں پرہمیشہ خاموش رہتے ہیں، جیسے جب آیة اللہ بروجردی اور آیة اللہ حکیم کے انتقال کے بعد، علماء مقام و منصب حاصل کرنے کے لیے اپنی شخصیت کو چمکانے کے چکرمیں پڑے ہوئے تھے، تب بھی آیة اللہ سیستانی اپنی ثابت سیاست پرعمل کرتے رہے۔ انہوں نے کبھی بھی دنیوی لذتوں اورعہدے و مقام کو اپنا مقصد نہیں بنایا۔

۵۔ فکری آثار:
حضرت آیة اللہ سیستانی صرف ایک فقیہ ہی نہیں بلکہ ایک بلند فکر اور نہایت ذہین انسان ہیں اوراقتصادی و سیاسی میدان پر بھی آپ کی گہری نظرہے۔ سماجی نظام و سیسٹم پر بھی آپ کے بہت اہم نظریے پائے جاتے ہیں اورآپ ہمیشہ اسلامی سماج کے حالات سے با خبررہتے ہیں ۔
قابل ذکر بات ہے کہ جب آپ ۲۹ ربیع الثانی سن ۱۴۰9 ھجری میں اپنے استاد آیة اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی کی عیادت کے لیے گئے تو آپ کے استاد نے آپ سے چاہا کہ آپ ان کی جگہ پرمسجد خضراء میں امامت کی ذمہ داری سنبھال لیں، لیکن آپ نے قبول نہیں کیا۔ مگرجب استاد محترم نے اصرارکیا اورفرمایا: ”کاش میں تمہیں اسی طرح حکم دے سکتا جس طرح مرحوم حاج آقا حسین قمی نے دیا تھا، تو میں بھی تمہیں قبول کرنے پرمجبورکردیتا“ تو یہ سن کر آپ اس ذمہ ذاری کو سنبھالنے کے لئے تیار ہوئے۔
لیکن آپ نے چند روز کی مہلت مانگی اوراس کے بعد 5 جمادی الاول سن۱۴۰9 میں امامت کی ذمہ داری قبول فرمائی اوراس فریضہ کو ۱۴۱۴ ھجری کے ذی الحجہ کے آخری جمہ تک انجام دیا اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس مسجد کو بند کردیا گیا اور یہ سلسلہ قطع ہوگیا۔
آپ سن۱۳۷۴ ھجری میں پہلی بار فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ الحرام تشریف لے گئے اورا س کے بعد سن ۱۴۰۴اور ۱۴۰۵ ھجری میں بھی بیت اللہ الحرام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

آپ کی مرجعیت

حوزہ علمیہ نجف اشرف کے کچھ علماء نقل کرتے ہیں کہ آیة اللہ سید نصراللہ مستنبط کے انتقال کے بعد کچھ علماء وفضلاء نے آیة اللہ خوئی سے یہ آرزو ظاہر کی کہ آپ مرجعیت کی صلاحیت رکھنے والے اپنے کسی شاگرد کو اپنے جانشین کے طور پر معین فرمادیں، تو انہوں نے، آیة اللہ سیستانی کو، ان کے علم، پرہیزگاری اورمضبوط نظریات کی وجہ سے انتخاب کیا۔ شروع میں آپ آیة اللہ خوئی کی محراب میں نماز پڑھایا کرتے تھے پھرآپ ان کے رسالہ پر بحث کرنے لگے اوراس پر تعلیقہ لگایا۔ آیة اللہ خوئی کے انتقال کے بعد ان کے تشیع جنازہ میں شریک ہونے اوران کے جنازہ پر نماز پڑھنے والوں میں آپ بھی تھے۔ آیة اللہ خوئی کے بعد حوزہ نجف کی مرجعیت کی باگ ڈورآپ کے ہاتھوں میں آگئی اور آپ نے اجازے دینے، شہریہ تقسیم کرنے اورمسجد خضراء میں آیة اللہ خوئی کے منبر سے تدریس کرنے کا کام شروع ک ردیا۔ اس طرح آیة اللہ سیستانی عراق، خلیجی ممالک، ہندوستان اورافریقہ وغیرہ کے جوان طبقہ میں جلدی ہی مشہور ہوگئے۔

حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی ایک جانے مانے عالم دین ہیں اور ان کی مرجعیت مشہور ہے۔حوزہ علمیہ قم و نجف کے استاد اور ایک بڑی تعداد میں اہل علم حضرات آپ کی عالمیت کے گواہ ہیں ۔
آخرمیں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ان کے سایہ کو ہمارے سروں پر باقی رکھے۔

العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français