مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

اونٹ، گائے، بھیڑ کی زکوٰۃ سے مربوط بعض دوسرے احکام ← → اونٹ ، گائے اور بھیڑ (بکری) کی زکوٰۃ

اونٹ ، گائے، بھیڑ (بکری) پر زکوٰۃ واجب ہونے کے خصوصی شرائط

پہلی شرط: مالک مذکورہ مال میں عرفاً تصرف کر سکتا ہو

مسئلہ 2548: اگر اونٹ یا گائے یا بھیڑ (بکری) کا مالک کسی وجہ سے قابلِ توجہ مدت تک اپنے مال میں تصرف نہ کر سکتا ہو مثلاً اس کا مال چوری ہو گیا ہو یا غصب کر لیا گیا ہو یا گم ہو گیا ہو تو اس مال پر زکوٰۃ نہیں ہے ۔

مسئلہ 2549: اونٹ ، گائے اور بھیڑ (بکری) پورے سال میں طبیعی چراہ گاہوں سے چریں ان کی زکوٰۃ واجب ہے اور فرق نہیں ہے کہ وہ گھاس جو حیوان چر رہا ہے بغیر مالک کے ہو یا مالک رکھتی ہو، اور مذکورہ گھاس خشک ہو یا تازی اس بنا پر اگر انسان ایسی زمین کا مالک ہو جس میں خودسے اگی ہوئی گھاس موجود ہو اور اس کی بھیڑیں (بکریاں) پورے سال اس میں چرتی رہی ہوں تو باقی شرائط موجود ہونے کی صورت میں ان کی زکوٰۃ واجب ہے۔

مسئلہ 2550: اگر اونٹ یا گائے یا بھیڑ (بکری) پورے سال یا اس کے کچھ حصے میں کاٹی ہوئی گھاس یا ایسی زراعت جسے بویا گیا ہو کھائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور فرق نہیں ہے کہ وہ گھاس یا زراعت حیوانات کے مالک کی ہو یا کسی دوسرے شخص کی غصبی ہو یا مباح ہو اور فرق نہیں کہ حیوانات کا وہاں چرنا ان کے مالک کے اختیار سے ہو یا مجبوراً ہو۔

مسئلہ 2551: اگر اونٹ یا گائے یا بھیڑ (بکری) پورے سال میں بہت کم مقدار کاٹی ہوئی گھاس کھائیں یا مختصرلگائی گئی زراعت سے کھائیں کہ عرف میں کہا جائے کہ پورے سال بیابان کی گھاس کھائی ہے یا کھاتی ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے اور اس چیز کو تشخیص دینے کا معیار عرف ہے۔

مسئلہ 2552:اگر انسان اپنے اونٹ ، گائے اور (بکری) کے لیے ایسی چراگاہ کو جسے کسی نے بویا نہیں ہے خریدے یا کرایہ پرلے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔ [302]

مسئلہ 2553: اگر گیارہ مہینے کے دوران مذکورہ جانور انسان کی ملکیت سے خارج ہو جائیں مثلاً انہیں بیچ دے یا ان کی تعداد اس حیوان کے نصابِ اول سے کم ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن گیارہواں مہینہ ختم ہونے اور بارہویں میں داخل ہونے کے بعد بعض شرائط کا مفقود ہونا اثر نہیں رکھتا اس لیے مذکورہ حیوانات پر زکوٰۃ واجب ہو چکی ہے اسے ادا کرنا واجب ہے۔

مسئلہ 2554: اگر انسان گیارہواں مہینہ ختم ہونے کے بعد اپنے گائے ، بھیڑ (بکری)، اونٹ کو کسی دوسرے ہم سنخ یا غیر ہم سنخ حیوان سے تبدیل کرے اور یہ کام زکوٰۃ سے فرار کرنے کے لیے نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن اگر ایسا کرنا زکوٰۃ سے فرار کرنے کے لیے ہو مثلاً زکوٰۃ سے فرار کرنے کے لیے چالیس بھیڑ دے اور دوسرے چالیس بھیڑ لے چنانچہ دونوں مقام کی منفعت ایک طرح کی ہو[303] مثلاً دونوں مقام میں دودھ دینے والی بھیڑ ہوں اور گیارہویں مہینے کے ختم ہونے تک زکوٰۃ واجب ہونے کے باقی شرائط بھی موجود ہوں تو احتیاط لازم ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔

مسئلہ 2555: اونٹ کے بارہ نصاب ہیں:

اوّل: پانچ اونٹ اور اس کی زکوٰۃ ایک بھیڑ ہے اور جب اونٹوں کی تعداد اتنی نہ ہو تو زکوٰۃ نہیں ہے۔

دوّم: دس اونٹ اور اس کی زکوٰۃ دو بھیڑ ہے۔

سوّم: پندرہ اونٹ اور اس کی زکوٰۃ تین بھیڑ ہے۔

چہارم: بیس اونٹ اور اس کی زکوٰۃ چار بھیڑ ہے۔

پنجم: پچیس اونٹ اور اس کی زکوٰۃ پانچ بھیڑ ہے۔

ششم: چھبیس اونٹ اور اس کی زکوٰۃ ایک اونٹ ہے جو دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہو۔

ہفتم: چھتیس اونٹ اور اس کی زکوٰۃ ایک اونٹ ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو گیا ہو۔

ہشتم: چھیالیس اونٹ اور اس کی زکوٰۃ ایک اونٹ ہے جو چوتھے سال میں داخل ہوا ہو۔

نہم: اکسٹھ اونٹ اور ان کی زکوٰۃ ایک اونٹ ہے جو پانچویں سال میں داخل ہو گیا ہو۔

دہم: چھہتّر اونٹ اور ان کی زکوٰۃ دو اونٹ ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو گئے ہوں۔

یازدہم: اکّیانوے اونٹ اور ان کی زکوٰۃ دو اونٹ ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو گئے ہوں

دوازدہم (بارہویں): ایک سو اکیس اونٹ اور اس سے زیادہ کے لیے لازم ہے کہ ہر چالیس اونٹ کے لیے ایک اونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل ہو گیا ہو یا ہر پچاس اونٹ کےلیے ایک اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل ہو گیا ہو یا چالیس اور پچاس دونوں اعتبار سے حساب کرے اور بعض مقامات میں اختیار رکھتا ہے چالیس یا پچاس کسی ایک سے حساب کرے جیسے دو سو اونٹ میں، لیکن ہر صورت میں لازم ہے کہ اس طرح سے حساب کرے کہ کچھ باقی نہ رہے یا اگر کچھ باقی رہے تو نو اونٹ سے زیادہ نہ ہو مثلاً اگر 140 اونٹ ہو تو سو اونٹ کےلیے دو ایسے اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل ہو گیا ہو اور چالیس اونٹ کے لیے ایک اونٹ ایسا اونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل ہو گیا ہے ۔

مسئلہ 2556: دو نصاب کے درمیان کے مال کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے پس اگر اونٹوں کی تعداد پہلے نصاب سے زیادہ ہوجائے جو پانچ ہے تو جب تک دوسرے نصاب تک نہ پہونچے جو دس ہے تو فقط پانچ اونٹ کی زکوٰۃ دینی ہوگی اور بعد کے نصابوں کا بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ 2557: گائے کے دو نصاب ہیں:

پہلا نصاب: تیس گائے ہے جس کی زکوٰۃ ایک گوسالہ (بچھڑا) ہے جو دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہو اور احتیاط واجب ہے کہ وہ گوسالہ نر ہو اور جب تک گائے کی تعداد تیس تک نہ پہونچے زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔

دوسرا نصاب: چالیس گائے ہے اور اس کی زکوٰۃ ایک مادہ گوسالہ ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو گیا ہو اور تیس اور چالیس کے درمیان کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے مثلاً جس شخص کے پاس صرف اُنتالیس گائے ہو تو وہ صرف تیس گائے کی زکوٰۃ دے گا۔

اگر چالیس گائے سے زیادہ رکھتا ہو تو جب تک تعداد ساٹھ تک نہ پہونچ جائے فقط چالیس گائے کی زکوٰۃ ادا کرے گا اور ساٹھ تک پہونچنے کے بعد کیونکہ پہلے نصاب کے دو برابر رکھتا ہے دو گوسالہ جو دوسرے سال میں داخل ہو دے گا، اور اسی طرح جتنا بھی بڑھتا رہے لازم ہے کہ یا تیس یا چالیس کے عدد کے لحاظ سے یا دونوں عدد كے اعتبار سے حساب کرے تاکہ کچھ باقی نہ رہے یا اگر کچھ باقی رہے تو نو سے زیادہ نہ ہو مثلاً اگر ستّر گائے رکھتا ہو تو لازم ہے کہ تیس اور چالیس سے حساب کرے کیونکہ اگر صرف تیس عدد کے لحاظ سے شمار کرے گا تو دس گائے بغیر زکوٰۃ دئے ہوئے باقی بچیں گی اور بعض مقامات میں جیسے ایک سو بیس اختیار رکھتا ہے ۔

مسئلہ 2558: بھیڑ(بکری) پانچ نصاب رکھتی ہے:

اوّل: چالیس ہے اور اس کی زکوٰۃ ایک بھیڑ ہے اور جب تک بھیڑ کی تعداد چالیس تک نہ پہونچے اس پر زکوٰۃ نہیں ۔

دوّم: ایک سو اکیس ہے اور اس کی زکوٰۃ دو بھیڑ ہے۔

سوّم: دو سو ایک ہے اور اس کی زکوٰۃ تین بھیڑ ہے۔

چہارم: تین سو ایک ہے اور اس کی زکوٰۃ چار بھیڑ ہے۔

پنجم: چار سو اور اس سے زیادہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ ہر سو بھیڑ پر ایک بھیڑ ہے ۔

مسئلہ 2559: دو نصاب کے درمیان کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے پس اگر بھیڑوں کی تعداد پہلے نصاب یعنی چالیس سے زیادہ ہو تو جب تک دوسرے نصاب کہ ایک سو اکیس ہے تک نہ پہونچ جائے فقط چالیس بھیڑوں کی زکوٰۃ ادا کرے اور اضافے پر زکوٰۃ نہیں ہے بعد کے نصابوں کا بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ 2560: حیوانات کی زکوٰۃ واجب ہونے میں اونٹ کی زکوٰۃ میں عربی اور غیر عربی اونٹ، گائے کی زکوٰۃ میں گائے ، بھینس، اور بھیڑ کی زکوٰۃ میں بھیڑ ، بکری ، میش (مادہ بھیڑ جس نے بچہ دیا ہو) اور شیشک (بالغ نر بھیڑ) ایک سنخ شمار ہوں گے اور حیوانات کانر زیادہ ہونا بھی کوئی فرق نہیں رکھتا۔

مسئلہ 2561: اگر چند لوگ ساتھ میں اونٹ یا گائے یا بھیڑ میں شریک ہوں تو ان میں سے جس کا بھی حصہ اس حیوان کے پہلے نصاب تک پہونچ جائے لازم ہے کہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے، اور جس شخص کا حصہ پہلے نصاب سے کم ہے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 2562: اگر ایک شخص کے پاس چند جگہ گائے یا اونٹ یا بھیڑ (بکری) ہوں اور سب ملاکر نصاب کی مقدار ہوں تو لازم ہے کہ ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔

مسئلہ 2563: وہ اونٹ جو زکوٰۃ کے طور پر دیا جاتا ہے لازم ہے کہ مادہ ہو لیکن اگر انسان کے پاس چھٹے نصاب میں اس کے اونٹوں میں دو سال کا مادہ اونٹ نہ ہو تو تین سال کا نر اونٹ دینا کافی ہے اور اگر وہ بھی نہ رکھتا ہو تو ان میں سے جو بھی چاہے خرید کر دے سکتا ہے۔

مسئلہ 2564: وہ بھیڑ جو اونٹ یا بھیڑ کی زکوٰۃ میں دی جاتی ہے احتیاط واجب کی بنا پر كم از كم دوسرے سال میں داخل ہو گئی ہو اور وہ بکری جوان کی زکوٰۃ کے عنوان سے ادا کی جائے احتیاط واجب کی بنا پر تیسرے سال میں داخل ہو گئی ہو۔

مسئلہ 2565: وہ بھیڑ جو انسان بعنوان زکوٰۃ دے رہا ہے اگر اس کی قیمت دوسری بھیڑوں سے تھوڑی کم ہو تو حرج نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ ایسی بھیڑ دے جس کی قیمت تمام بھیڑوں سے زیادہ ہے اور گائے اونٹ کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ 2566: اگر انسان کے پاس کچھ ایسے اونٹ، گائے یا بھیڑ ہوں جو مریض اور معیوب شمار ہوتے ہوں تو اس کی وجہ سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی بلکہ اس کی زکوٰۃ دینا لازم ہے۔

مسئلہ 2567: اگر انسان کے پاس ایسے بھیڑ ، گائے یا اونٹ ہوں جو سب کے سب مریض ، معیوب یا بوڑھے ہوں، تو ان کی زکوٰۃ خود انہیں میں سے ادا کر سکتا ہے لیکن اگر سب سالم ، بے عیب اور جوان ہوں تو ان کی زکوٰۃ ایسے حیوان سے جو بوڑھا معیوب یا مریض ہے نہیں دے سکتا بلکہ اگر ان میں سے بعض سالم اور بعض مریض ، کچھ معیوب اور کچھ بے عیب اور کچھ بوڑھے اور کچھ جوان ہوں تو احتیاط واجب ہے کہ ان کی زکوٰۃ کے لیے سالم بے عیب اور جوان جانور دے۔

مسئلہ 2568: ان اونٹوں کی زکوٰۃ جو نصاب کی مقدار میں سے خود نصاب میں سے دینا لازم نہیں ہے بلکہ کوئی دوسرا اونٹ بھی دے تو کافی ہے اور یہ حکم گائے اور بھیڑ کے بارے میں بھی جاری ہے اس بنا پر مال کا نصاب یا غیر نصاب سے زکوٰۃ ادا کرنے میں اختیار رکھتا ہے بلکہ اونٹ گائے یا بھیڑ کی قیمت کے مطابق جو زکوٰۃ میں دینا جائز ہے پیسہ گرچہ خود اس نصاب میں سے جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے زکوٰۃ نکالنا احتیاط مستحب ہے لیکن اور پیسے کے علاوہ کسی اور چیز سے اس کی زکوٰۃ دینا احتیاط واجب کی بنا پر کافی نہیں ہے۔

مسئلہ 2569:جس شخص پر گائے ، بھیڑ، اونٹ وغیرہ کی زکوٰۃ دینا لازمی ہے جب تک ان کا نصاب پہلے نصاب سے کم نہ ہو لازم ہے کہ ہر سال اس کی زکوٰۃ ادا کرے اس بنا پر چنانچہ ان کی زکوٰۃ کسی دوسرے مال سے ادا کرے جب تک ان کی تعداد نصاب سے کم نہیں ہوتی ہے اور زکوٰۃ ثابت ہونے کے باقی شرائط بھی پائے جاتے ہوں ہر سال اس کی زکوٰۃ دینا لازم ہے اور اگر خود ان میں سے دے اور پہلے نصاب سے کم ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے مثلاً جس شخص کے پاس چالیس بھیڑ ہے اگر کسی دوسرے مال سے اس کی زکوٰۃ دے جب تک اس کی بھیڑیں چالیس سے کم نہیں ہوتی ہیں ہر سال ایک بھیڑ زکوٰۃ میں دینی ہوگی اور اگر خود انہیں میں سے دے تو جب چالیس نہ ہوں اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔


[301] ایسے حیوانات کو جو طبیعی چراہ گاہوں سے استفادہ کریں سائمہ کہا جاتا ہے۔
[302] کیونکہ ایسے مقام میں عنوان سائمہ صادق آنا اشکال رکھتا ہے۔
اونٹ، گائے، بھیڑ کی زکوٰۃ سے مربوط بعض دوسرے احکام ← → اونٹ ، گائے اور بھیڑ (بکری) کی زکوٰۃ
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français