فتووں کی کتابیں » مختصر احکام عبادات
تلاش کریں:
طہارت کے احکام ←
→ مقدمه
احکام تقلید
مسئلہ ۱۔ دین اسلام میں واجبات اور محرّمات میں ہر مکلّف پر واجب ہے اس پر عمل کرے اور یہ اطمینان حاصل کرے کہ اس نے شرعی فرائض کو انجام دیاہے، یہ عمل غیر مجتہد کے لئے ان تین طریقوں کے علاوہ غالباً غیر ممکن ہے۔
۱۔ تقلید : یعنی مکلّف اپنے اعمال کو ایسے مجتہد کے فتوے کے مطابق انجام دے جو صلاحیت تقلید رکھتاہو۔
۲۔ احتیاط : یعنی مکلّف اس طرح عمل انجام دے کہ اُسے حکم واقعی انجام دینے کا یقین ہو جائے۔
مثلاً : اگر امکان پایا جائے کہ نمازکے لئے اقامت واجب ہے تو اُسے بجالائے، اور اسی طرح اگر امکان ہو کہ ( تمباکو، سگریٹ وغیرہ) حرام ہے اور احتیاط کرناچاہئے تو اُسے ترک کرے اور بعض دوسرے موارد میں ممکن ہے احتیاط کا تقاضا ایک عمل کو مختلف شکل میں تکرار کرنا ہو۔ مثلا ً اگر مسافر احتیاط کرنا چاہے تو بعض حالات میں نماز ظہر و عصر کو قصر اور تمام دونوں بجالانا ہوگا۔
توجہ رہے کہ ایسے طریقوں سے آگاہی جس کے ذریعے احتیاط کرسکے ایک فقہی معلومات پرموقوف ہے جو کہ سماج کے اکثر افراد کے لئے میسر نہیں ہے۔
مزید یہ کہ اکثر موارد میں احتیاط کرنا دشوار بلکہ غیر ممکن ہے ان تمام وجوہات کی بناپر ( تقلید) پر عمل کرنا غالب افراد کے لئے بہترین راستہ ہے تاکہ اپنے شرعی فرائض انجام دے سکیں ۔
مسئلہ ۲۔ لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر ۹،سال قمری کا مکمل ہونا ہے (تقریباًآٹھ سال آٹھ مہینے بیس دن عیسوی) اور لڑکوں میں پندرہ سال قمری کا مکمل ہونا ہے ( تقریباًچودہ سال چھ مہینے پندرہ دن عیسوی) البتہ اگر لڑکے میں ۱۵، سال قمری مکمل ہونے سے قبل نیچے دی ہوئی تین علامتوں میں سے کوئی ایک پائی جائے تو وہ شرعی طور پر بالغ شمار ہوگا
۱۔ زیر ناف سخت بالوں کا نکل آنا۔
۲۔ خواب یا بیدا ری میں منی خارج ہونا۔
۳۔ چہرے پر سخت بال یا مونچھ کا نکل آنا۔
مسئلہ ۳: اگر مجتہد کے اندراج ذیل شرائط موجود ہوں تو اس کی تقلید کی جاسکتی ہے۔
۱۔ بالغ ہو
۲۔ عاقل ہو
۳۔ مردہو
۴۔ حلال زادہ ہو یعنی حلال طریقے سے پیداہو ا ہو زناسے پیدا نہ ہوا ہو۔
۵۔ مومن ہو اور مومن وہ ہے جو شیعہ اثنا عشری مذہب کا پیرو کار ہو۔
۶۔ عادل ہو یعنی اسلام کے طور طریقے پر ہو اور اس کے خلاف نہ جائے یعنی اپنے واجبات کو انجام دے اور حرام کو ترک کرے۔
۷۔ فقہی مہارت سے مربوط امور میں زیادہ غلطی، فراموشی اور غفلت کا شکا ر نہ ہو۔
مسئلہ ۴ : اگر مذکورہ شرائط کے چند مجتہد ین ہوں اور ان کے فتوں میں اختلا ف ہو جیسا کہ معمولاًاجتہادی مسائل میں اختلاف پیش آتاہے۔
تو مسئلے میں چند صورت ہے جس میں سے اہم صورت درجہ ذیل ہیں:
پہلی صورت: مکلّف کو علم ہو کہ کوئی ایک مجتہد دوسرے مجتہدیں سے اعلم ہے تو اس صورت میں اسی اعلم کی تقلید کرے گا۔
دوسری صورت: مکلّف کو علم ہو کہ دو مجتہد باقی مجتہد سے اعلم ہیں لیکن یہ دونوں علم میں برابر ہیں یا یہ کہ نہ جانتاہو ان دو میں عالم کو ن ہے اس صورت میں اگر مکلّف کے لئے یہ ثابت ہوجائے کہ ان میں ایک زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے ( یعنی ان امور میں جو فتوی دینے میں نقش رکھتے ہیں زیادہ غورفکر اور احتیاط سے کام لیتاہے اور ہر مسئلہ شرعی کے استنباط میں زیادہ چھان بین کر تاہے) تو اس مجتہد کی تقلید واجب ہے۔اور اگر زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو نا ثابت نہ ہو تو مکلّف ان دومیں سے کسی ایک کے فتوے پر عمل کر نے میں مختار ہے مگر خاص موارد میں جن کی وضاحت توضیح المسائل میں دی گئی ہے۔
تیسری صورت: مکلّف کو علم ہو کہ موجودہ مجتہدین میں کوئی ایک اعلم ہے لیکن اُسے معین نہ کر سکتاہو تو اس صورت میں مکلّف کو ان تمام مجتہدین کے فتوں میں احتیاط کرنا ہوگاجن میں کسی ایک کے اعلم ہونے کا یقین ہے۔ البتہ اس حکم میں ایک استثناء ہےجو کہ تو ضیح المسائل میں ذکرکیا گیاہے۔
مسئلہ ۵ : مجتہد کا اعلم ہونا درجہ ذیل کسی ایک طریقے سے ثابت ہو تاہے۔
۱۔ ایک قابل اطمینان شخص جو اس موضوع میں مہارت رکھتاہو کسی مجتہد کے اعلم ہونے کی گواہی دے جیسے اہل خبرہ مجتہدین یا ایسے افراد کی گواہی جو اجتہاد کے قریب ہیں۔
البتہ ان افراد کی گواہی اس وقت قابل قبول ہے جب ان جیسی خصوصیات کے دوسرے افراد ان کے خلاف ( ا س کے اعلم نہ ہونے یا دوسرے مجتہد کے اعلم ہونےکی) گواہی نہ دیں کیونکہ اس صورت میں تضاد پیش آئے گا اور تضاد کی صورت میں ان کی گواہی مانی جائے گی جو اس موضوع میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔
۲۔ مکلّف مقبول اور معقول طریقے سے کسی مجتہد کے اعلم ہونے کا اطمینان حاصل کرے بطور مثال اس کا اعلم ہونا اہل علم میں مشہور ہو یا مکلّف اگر صلاحیت رکھتاہو تو خود اس کی علمی سطح اور مہارت کو آزمائے۔
مسئلہ ۶۔ اگر کوئی شخص کسی مجتہد کے اعلم ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اس کی تقلید کر رہا ہو اور بعد میں کسی دوسرے مجتہد کا اعلم ہونا اس کے لئے ثابت ہوجائے تو لازم ہے کہ اس دوسرے مجتہد کی تقلید کرے۔
مسئلہ ۷۔ مکلّف جس مجتہد کی تقلید میں تھا اگر اس کا انتقال ہوجائے اور وہ زندہ تمام مجتہدین سے اعلم تھا تو لازم ہے کہ اس کی تقلید پر باقی رہے خواہ اس کے فتوں پر عمل کیا ہو یا عمل نہ کیا ہو، اس کے فتوں کو یاد کیا یا نہ کیا ہو۔
لیکن اگر زندہ مجتہد وقت گزرنے کے سا تھ فوت شدہ مجتہد سے اعلم ہوجائے تو مکلّف پر لازم ہے کہ زندہ مجتہد پر رجوع کرے، کیونکہ تقلید کے صحیح ہونے کا معیار اعلم ہونا ہے۔
مسئلہ ۸۔ فوت شدہ مجتہد کی ابتدا ئی تقلید جائز نہیں ہے گر چہ وہ زندہ مجتہدوں سے اعلم ہو۔
مسئلہ ۹۔ اگر اعلم مجتہد کسی مسئلے میں فتوے نہ دے یا یہ کہ مکلّف ضرورت کے وقت اس کے فتوے سے آگاہ نہ ہوسکے تو اس مسئلہ میں اعلم کی تر تیب کی رعایت کرتے ہوئے دوسرے مجتہد پر رجوع کر سکتاہے۔
مسئلہ ۱۰۔ اس رسالہ میں جو احکام احتیاط واجب کے عنوان سے بیان ہوتے ہیں ان موارد میں سے شمار کئے جائیں گے جس میں دوسرے مجتہد پر (اعلم کی ترتیب کی رعایت کر تے ہوئے) رجوع کیا جاسکتاہے۔
البتہ اس رسالہ میں احتیاط واجب کو مختلف تعبیر سے بیان کیا گیاہے۔
۱۔ کبھی صراحتاًبیان کیاگیاہے جیسے ( احتیاط واجب کی بنا پر پیر کا مسح جوڑ تک کرے) اور کبھی صراحتاًذکر نہیں ہوا ہے بلکہ ( اشکال رکھتاہے) سے تعبیر کیاگیاہے۔ جیسے کہ ہم کہیں ( اگر چہرہ نیچے یا بیچ سے دھونا شروع کرے تو اشکال رکھتاہے)۔
۲۔ کبھی فتوے یا حکم میں ( احتیاط واجب کی قید لگاکر بیان کیاگیاہے جیسے اگر کوئی شخص اذان ظہر کے بعد سفر کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اپنے روزے کو مکمّل کرے)۔
۳۔ کبھی کسی مسئلے میں صرف لفظ احتیاط آیا ہے بغیر یہ کہ کسی فتوے کا ذکر ہو جیسے ( اگر کسی برتن میں کتّے کا لعاب گرجائے احتیاط یہ ہے کہ پہلے برتن کو مٹی سے مانجیں پھر تین دفعہ پانی سے دھویں ۔
طہارت کے احکام ←
→ مقدمه
۱۔ تقلید : یعنی مکلّف اپنے اعمال کو ایسے مجتہد کے فتوے کے مطابق انجام دے جو صلاحیت تقلید رکھتاہو۔
۲۔ احتیاط : یعنی مکلّف اس طرح عمل انجام دے کہ اُسے حکم واقعی انجام دینے کا یقین ہو جائے۔
مثلاً : اگر امکان پایا جائے کہ نمازکے لئے اقامت واجب ہے تو اُسے بجالائے، اور اسی طرح اگر امکان ہو کہ ( تمباکو، سگریٹ وغیرہ) حرام ہے اور احتیاط کرناچاہئے تو اُسے ترک کرے اور بعض دوسرے موارد میں ممکن ہے احتیاط کا تقاضا ایک عمل کو مختلف شکل میں تکرار کرنا ہو۔ مثلا ً اگر مسافر احتیاط کرنا چاہے تو بعض حالات میں نماز ظہر و عصر کو قصر اور تمام دونوں بجالانا ہوگا۔
توجہ رہے کہ ایسے طریقوں سے آگاہی جس کے ذریعے احتیاط کرسکے ایک فقہی معلومات پرموقوف ہے جو کہ سماج کے اکثر افراد کے لئے میسر نہیں ہے۔
مزید یہ کہ اکثر موارد میں احتیاط کرنا دشوار بلکہ غیر ممکن ہے ان تمام وجوہات کی بناپر ( تقلید) پر عمل کرنا غالب افراد کے لئے بہترین راستہ ہے تاکہ اپنے شرعی فرائض انجام دے سکیں ۔
مسئلہ ۲۔ لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر ۹،سال قمری کا مکمل ہونا ہے (تقریباًآٹھ سال آٹھ مہینے بیس دن عیسوی) اور لڑکوں میں پندرہ سال قمری کا مکمل ہونا ہے ( تقریباًچودہ سال چھ مہینے پندرہ دن عیسوی) البتہ اگر لڑکے میں ۱۵، سال قمری مکمل ہونے سے قبل نیچے دی ہوئی تین علامتوں میں سے کوئی ایک پائی جائے تو وہ شرعی طور پر بالغ شمار ہوگا
۱۔ زیر ناف سخت بالوں کا نکل آنا۔
۲۔ خواب یا بیدا ری میں منی خارج ہونا۔
۳۔ چہرے پر سخت بال یا مونچھ کا نکل آنا۔
مسئلہ ۳: اگر مجتہد کے اندراج ذیل شرائط موجود ہوں تو اس کی تقلید کی جاسکتی ہے۔
۱۔ بالغ ہو
۲۔ عاقل ہو
۳۔ مردہو
۴۔ حلال زادہ ہو یعنی حلال طریقے سے پیداہو ا ہو زناسے پیدا نہ ہوا ہو۔
۵۔ مومن ہو اور مومن وہ ہے جو شیعہ اثنا عشری مذہب کا پیرو کار ہو۔
۶۔ عادل ہو یعنی اسلام کے طور طریقے پر ہو اور اس کے خلاف نہ جائے یعنی اپنے واجبات کو انجام دے اور حرام کو ترک کرے۔
۷۔ فقہی مہارت سے مربوط امور میں زیادہ غلطی، فراموشی اور غفلت کا شکا ر نہ ہو۔
مسئلہ ۴ : اگر مذکورہ شرائط کے چند مجتہد ین ہوں اور ان کے فتوں میں اختلا ف ہو جیسا کہ معمولاًاجتہادی مسائل میں اختلاف پیش آتاہے۔
تو مسئلے میں چند صورت ہے جس میں سے اہم صورت درجہ ذیل ہیں:
پہلی صورت: مکلّف کو علم ہو کہ کوئی ایک مجتہد دوسرے مجتہدیں سے اعلم ہے تو اس صورت میں اسی اعلم کی تقلید کرے گا۔
دوسری صورت: مکلّف کو علم ہو کہ دو مجتہد باقی مجتہد سے اعلم ہیں لیکن یہ دونوں علم میں برابر ہیں یا یہ کہ نہ جانتاہو ان دو میں عالم کو ن ہے اس صورت میں اگر مکلّف کے لئے یہ ثابت ہوجائے کہ ان میں ایک زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے ( یعنی ان امور میں جو فتوی دینے میں نقش رکھتے ہیں زیادہ غورفکر اور احتیاط سے کام لیتاہے اور ہر مسئلہ شرعی کے استنباط میں زیادہ چھان بین کر تاہے) تو اس مجتہد کی تقلید واجب ہے۔اور اگر زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو نا ثابت نہ ہو تو مکلّف ان دومیں سے کسی ایک کے فتوے پر عمل کر نے میں مختار ہے مگر خاص موارد میں جن کی وضاحت توضیح المسائل میں دی گئی ہے۔
تیسری صورت: مکلّف کو علم ہو کہ موجودہ مجتہدین میں کوئی ایک اعلم ہے لیکن اُسے معین نہ کر سکتاہو تو اس صورت میں مکلّف کو ان تمام مجتہدین کے فتوں میں احتیاط کرنا ہوگاجن میں کسی ایک کے اعلم ہونے کا یقین ہے۔ البتہ اس حکم میں ایک استثناء ہےجو کہ تو ضیح المسائل میں ذکرکیا گیاہے۔
مسئلہ ۵ : مجتہد کا اعلم ہونا درجہ ذیل کسی ایک طریقے سے ثابت ہو تاہے۔
۱۔ ایک قابل اطمینان شخص جو اس موضوع میں مہارت رکھتاہو کسی مجتہد کے اعلم ہونے کی گواہی دے جیسے اہل خبرہ مجتہدین یا ایسے افراد کی گواہی جو اجتہاد کے قریب ہیں۔
البتہ ان افراد کی گواہی اس وقت قابل قبول ہے جب ان جیسی خصوصیات کے دوسرے افراد ان کے خلاف ( ا س کے اعلم نہ ہونے یا دوسرے مجتہد کے اعلم ہونےکی) گواہی نہ دیں کیونکہ اس صورت میں تضاد پیش آئے گا اور تضاد کی صورت میں ان کی گواہی مانی جائے گی جو اس موضوع میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔
۲۔ مکلّف مقبول اور معقول طریقے سے کسی مجتہد کے اعلم ہونے کا اطمینان حاصل کرے بطور مثال اس کا اعلم ہونا اہل علم میں مشہور ہو یا مکلّف اگر صلاحیت رکھتاہو تو خود اس کی علمی سطح اور مہارت کو آزمائے۔
مسئلہ ۶۔ اگر کوئی شخص کسی مجتہد کے اعلم ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اس کی تقلید کر رہا ہو اور بعد میں کسی دوسرے مجتہد کا اعلم ہونا اس کے لئے ثابت ہوجائے تو لازم ہے کہ اس دوسرے مجتہد کی تقلید کرے۔
مسئلہ ۷۔ مکلّف جس مجتہد کی تقلید میں تھا اگر اس کا انتقال ہوجائے اور وہ زندہ تمام مجتہدین سے اعلم تھا تو لازم ہے کہ اس کی تقلید پر باقی رہے خواہ اس کے فتوں پر عمل کیا ہو یا عمل نہ کیا ہو، اس کے فتوں کو یاد کیا یا نہ کیا ہو۔
لیکن اگر زندہ مجتہد وقت گزرنے کے سا تھ فوت شدہ مجتہد سے اعلم ہوجائے تو مکلّف پر لازم ہے کہ زندہ مجتہد پر رجوع کرے، کیونکہ تقلید کے صحیح ہونے کا معیار اعلم ہونا ہے۔
مسئلہ ۸۔ فوت شدہ مجتہد کی ابتدا ئی تقلید جائز نہیں ہے گر چہ وہ زندہ مجتہدوں سے اعلم ہو۔
مسئلہ ۹۔ اگر اعلم مجتہد کسی مسئلے میں فتوے نہ دے یا یہ کہ مکلّف ضرورت کے وقت اس کے فتوے سے آگاہ نہ ہوسکے تو اس مسئلہ میں اعلم کی تر تیب کی رعایت کرتے ہوئے دوسرے مجتہد پر رجوع کر سکتاہے۔
مسئلہ ۱۰۔ اس رسالہ میں جو احکام احتیاط واجب کے عنوان سے بیان ہوتے ہیں ان موارد میں سے شمار کئے جائیں گے جس میں دوسرے مجتہد پر (اعلم کی ترتیب کی رعایت کر تے ہوئے) رجوع کیا جاسکتاہے۔
البتہ اس رسالہ میں احتیاط واجب کو مختلف تعبیر سے بیان کیا گیاہے۔
۱۔ کبھی صراحتاًبیان کیاگیاہے جیسے ( احتیاط واجب کی بنا پر پیر کا مسح جوڑ تک کرے) اور کبھی صراحتاًذکر نہیں ہوا ہے بلکہ ( اشکال رکھتاہے) سے تعبیر کیاگیاہے۔ جیسے کہ ہم کہیں ( اگر چہرہ نیچے یا بیچ سے دھونا شروع کرے تو اشکال رکھتاہے)۔
۲۔ کبھی فتوے یا حکم میں ( احتیاط واجب کی قید لگاکر بیان کیاگیاہے جیسے اگر کوئی شخص اذان ظہر کے بعد سفر کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اپنے روزے کو مکمّل کرے)۔
۳۔ کبھی کسی مسئلے میں صرف لفظ احتیاط آیا ہے بغیر یہ کہ کسی فتوے کا ذکر ہو جیسے ( اگر کسی برتن میں کتّے کا لعاب گرجائے احتیاط یہ ہے کہ پہلے برتن کو مٹی سے مانجیں پھر تین دفعہ پانی سے دھویں ۔