فتووں کی کتابیں » مختصر احکام عبادات
تلاش کریں:
۲۔ غسل ←
→ طہارت کے احکام
پہلی فصل : حدث سے طہارت ۱۔ وضو
مسئلہ ۱۱۔وضو میں چھ حصّے ہیں:
پہلا: چہرے کا دھونا، اور اس کی مقدار لمبائی میں پیشانی کے اوپر ( معمولا ً جہاں سر کے بال نکلتے ہیں) سے ٹھڈّی کے آخری حصّے تک اور چوڑائی میں انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا درمیانی حصّہ ہے۔ ( یعنی جب ہاتھ کھلاہواہو اور چہرہ دھو رہے ہوں تو جتنی مقدار انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کے درمیان آتی ہے) اُسے دھونا لازم ہے۔
مسئلہ ۱۲۔ احتیاط واجب کی بناپر چہرہ اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے، اگر چہرہ نیچے سے یا بیچ سے دھونا شروع کرے تو اس کام میں اشکال ہے، البتہ چہرہ دھونے میں بہت زیادہ غورو فکر کرنا لازم نہیں بلکہ کافی ہے کہ پانی چہرے کے اوپری حصّے سے ڈالے اور دونوں طرف پھیلادے گرچہ ٹھڈی خط کی طرح ہو۔
مسئلہ ۱۳۔ چہرے پر پانی وضوکی نیت سے ڈالے البتہ یہ اہم نہیں ہے کہ پانی کس ذریعے سے چہرے پر ڈالے خواہ ہتھیلی میں پانی لیکر ڈالے یا ہاتھ پھیر نے کے ذریعے تمام حصّے تک پانی پہنچائے،یا اپنا چہرہ ٹوٹی کے نیچے رکھ کراوپر سے نیچے کی طرف پانی پہنچائے یا یہ کہ اپنا چہرہ حوز وغیرہ میں ڈباکر پانی پہنچائے اہم یہ ہےکہ چہرہ اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔
مسئلہ ۱۴۔ پانی کا بغیر کسی رکاوٹ کے چہرے تک پہنچنا لازم ہے، البتہ جس شخص کے چہرے پر جبیرہ ہے اِس حکم سے استثناءہے، یعنی وہ شخص جس کے چہر ے پر زخم، پھوڑا یا شکستگی ہو اور اس کے اوپر بینڈڈ وغیرہ لگایاہو ا ہو، اس شخص کے لئے جائز ہے کہ جبیرہ کی جگہ دھونے کے بجائے جبیرہ کے اوپر گیلا ہاتھ پھیرے اور جبیرہ کا ہٹانا اگر زیادہ مشقت، حرج یا نقصان کا باعث ہےتو لازم نہیں ہے۔
دوسرا: دایاں ہاتھ دھونا اور اس کی مقدار کہنی سے انگلیوں کے سرے تک ہے۔
مسئلہ ۱۵۔ ہاتھوں کو کہنی سے دھونا شروع کرے انگلیوںکے سرے پر ختم کرے اس لئے انگلیوں سے یا ہاتھ کے بیچ سے دھونا شروع کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۔ ہاتھوں کے دھونے میں وضو کی نیت لازم ہے اور یہ کہ گذشتہ طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے دھوئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ کھال تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو اس لئے وہ عورت جو زینت کےلئے ناخن پالش کا استعمال کرتی ہے، یا وہ مر د جو اپنے کام میں تیل کا استعمال کرتاہے یا پینٹر جس کے ہاتھ میں رنگ لگاہوا ہے وغیرہ ان سب پر لازم ہے کہ وضو کر تے وقت ان رکاوٹوں کے برطرف ہونے کا اطمینان حاصل کریں۔
البتہ جس کے ہاتھ پر جبیرہ ہو اسی تفصیل کے مطابق جو چہرے کے دھونے میں بیان ہوئی اس حکم سے استثناءہے۔
تیسرا: بایاں ہاتھ اسی طریقے سے دھوئے جس طرح دائیں ہاتھ کے بارے میں بیان ہوا۔
چوتھاـ : سر کے اگلے حصّے کا مسح اور اس کی مقدار سر کے اوپری حصّے سے پیشانی کے اوپری حصّے ( سے پہلے) تک ہے اور چوڑائی میں ایک انگلی کی چوڑائی کی مقدار مسح کریں گرچہ بہتر ہے کہ تین ملی ہوئی انگلیوں کی مقدار چوڑان سے مسح کریں۔
مسئلہ ۱۷۔ سرکی کھال پر مسح ضروری نہیں ہے بلکہ اس پر جمے ہوئے بالوں پر بھی مسح کافی ہے بشرطیکہ سامنے کے ان بالوں پر مسح کرے جو کنگھی کرنے یا پھیر نے سے سرکے سامنے والے حصّے سے خارج نہ ہوں ۔
مسئلہ۱۸۔ ہاتھوں میں بچی ہوئی تری سے مسح کرنا واجب ہے اور بہتر ہےکہ دائیں ہاتھ کی تری سے انجام دے لیکن اگر گرمی یا کسی اور وجہ سے وضو کرنے والے کے دونوں ہاتھ کہنی سے لیکر انگلیوں کے سرے تک خشک ہوجائیں تو داڑھی کی تری لیکر مسح کر سکتاہے اور کسی دوسرے پانی سے مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ وضو کو تکرار کرنے کے بعد بھی لازم مقدار تری کو محفوظ نہ کرسکتاہو۔
مسئلہ ۱۹۔ اگر مسح کرنے والے یا مسح کئےجانے والے عضو کے درمیان کوئی چیزحائل ہو تو مسح صحیح نہیں ہے گرچہ وہ حائل بہت نازک ہو اور تری پہو نچنے میں رکاوٹ نہ بنے لیکن اگر جبیرہ ہے تو اس حکم سے استثنا ء ہے، خود جبیرہ پر مسح کرنا کافی ہے۔
پانچواں : دائیں پیر کا مسح اور اس کی مقدار لمبائی میں پاؤ ں کی کسی ایک انگلی سے لیکر پاؤں کی اُبھری ہوئی جگہ تک ہے بلکہ احتیاط واجب کی بناپر جوڑ (ٹخنہ)تک مسح کرے۔
اور چوڑائی میں اتنی مقدار ہونا کافی ہے جس پر مسح صادق آئے گرچہ ایک انگلی کی چوڑان کی مقدار ہو۔
مسئلہ ۲۰ ۔ پیر کا مسح اس تفصیل کے مطابق جو سرکے مسح میں بیان ہوئی ہاتھوں میں بچی ہوئی تری سے ہونا چاہئے اور بہتر ہے کہ دائیں ہاتھ سے مسح کرے گرچہ بائیں ہاتھ سے مسح کر نابھی جائز ہے۔
مسئلہ۲۱۔ اگر مسح کرنے والے اور مسح کئے جانے والے عُضو کے درمیان کوئی چیزحائل ہو تو مسح صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ وہ حائل جبیرہ ہو جیسا کہ سر کے مسح میں بیان کیاگیا۔
چھٹا: بائیںپیر کا مسح ، اسی طریقے سے انجام دے جس طرح دائیں پیر کا مسح انجام دیاہے اور بہتر ہے کہ بائیں ہاتھ سے بائیں پیر کا مسح انجام دے گرچہ دائیں ہاتھ سے بھی کرنا جائز ہے۔
مسئلہ۲۲۔ وضو میں چند شرائط ہیں:
۱۔ نیت کرے، یعنی وضو کرنے کا مقصد خداوند متعال کی اطاعت ہو۔
۲۔ وضو کا پانی پاک ہو، نجس پانی سے وضو صحیح نہیں ہے۔
۳۔ وضو کا پانی مباح ہو، غصبی پانی سے وضوصحیح نہیں ہے۔
۴۔ وضو کا پانی مطلق ہو، مضاف پانی جیسے کیوڑاوغیرہ سے وضو صحیح نہیں ہے۔
۵۔ اعضائے وضو پاک ہو ں یعنی اعضائے وضو میں سے ہر ایک دھونے اور مسح کرنے سے پہلے پاک ہونا چاہئے۔
۶۔ وضو کے لئے پانی کے استعمال کی کوئی شرعی ممانعت نہ ہو وگرنہ تیمم واجب ہوگا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
۷۔ تر تیب کی رعایت کرے یعنی چہرہ دھونے سے وضوکی شروعات کرے اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھوئے، اس کے بعد سر پھر پیر کا مسح کرے اور احتیاط لازم کی بناپر بائیں پیر کا مسح دائیں پیر سے پہلے انجام نہ دے البتہ دونوں پیر کا ساتھ میں مسح کرنا جائز ہے۔
۸۔ عرف کی نگاہ میں وضو کے افعال پے در پے انجام دے، البتہ مختصر فاصلے میں جو ایک عضو کے دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں معمو لاًپیش آتاہے حرج نہیں ہے، اور اگر کوئی اتفاق پیش آئے جیسے پانی ختم ہوجا نا یا بھول جانا تو اس صورت اگر بعد والا عضو پہلے والے عضو کے خشک ہونے سے پہلےدھولے تو کفایت کرے گا۔
۹۔ وضو کرنے والا شخص وضو کے تمام افعال خود انجام دے لیکن مجبوری کی حالت میں جن افعال کو خود انجام نہیں دے سکتا، اس کے لئے دوسرے سے مدد لے سکتاہے البتہ اس صورت میں مسح اپنے ہی ہاتھ سے کرے لیکن اگر کسی عذر کی بنا پر جیسے کہ معلول وغیرہ اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو مدد کرنے والا شخص اس کے ہاتھوں سے تری لیکر مسح انجام دے۔
مسئلہ ۲۳۔ وہ امور جن کے سبب وضو باطل ہوجاتاہے :
۱۔ پیشاب کا خارج ہونا۔
۲۔ پاخانہ خارج ہونا۔
۳۔ معدے کی ریاح پاخانے کے مقام سے خارج ہونا۔
۴۔ نیند جو حواس پر غالب آئے یعنی آنکھیں نہ دیکھیںاورکان نہ سنیں اور دوسری چیزوںکو بھی درک نہ کر پا رہا ہو اور جن چیزوں سے عقل زائل ہو جاتی ہے اس کا بھی حکم نیند کی طرح ہے جیسے دیوانگی، بیہوشی وغیرہ۔
۵۔ عورت کا خون استحاضہ جس کے احکام بعد میں بیان ہوں گے۔
۶۔ جنابت وضو کو باطل کرتی ہے اگرچہ جنابت کی وجہ سے صرف غسل واجب ہوتاہے جس کے احکام بعد میں بیان ہون گے۔
مسئلہ ۲۴۔ پیشاب پاخانہ اور ریاح کے خارج ہونے کے سبب وضو باطل ہونے کے حکم سے ایک مقام کو استثناء کیا گیاہے اور وہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ءہو جس کی وجہ سے ان چیزوں کے خارج ہونے سے خود کو روک نہ سکتاہو تو ایسے شخص کو دائم الحدث ( ہمیشہ حدث میں رہنے والا) کہتے ہیں، پس اگر پے درپے اس سے حدث اس طرح خار ج ہو رہا ہو کہ اتنی مہلت بھی نہ ملتی ہو جس میں وضو کرکے نماز کا کچھ حصّہ بھی پڑھ سکے تو اسے چاہئے کہ وضو کرکے نماز پڑھے اور نما ز کے دوران جو کچھ اس سے خارج ہو اس پر توجہ نہ کرے اور ایسا شخص جب تک کوئی دوسرا حدث اس سے خارج نہ ہو اپنی طہارت پر باقی رہے گا۔
مسئلہ ۲۵۔ نماز اور ہر اس عبادت کے لئے جس میں حدث اصغر سے پاک ہونا شرط ہے۔ وضو کرنا واجب ہے، جو شخص بغیر وضو ہے اس کےلئے بدن کے کسی بھی حصّے کو قرآن کے خط سے مس کرنا جائز نہیں ہے بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر بدن کے کسی حصّے کو اسم جلالہ ( اللہ) اور اس کی مخصوص صفات سے بھی مس نہ کرے۔
۲۔ غسل ←
→ طہارت کے احکام
پہلا: چہرے کا دھونا، اور اس کی مقدار لمبائی میں پیشانی کے اوپر ( معمولا ً جہاں سر کے بال نکلتے ہیں) سے ٹھڈّی کے آخری حصّے تک اور چوڑائی میں انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا درمیانی حصّہ ہے۔ ( یعنی جب ہاتھ کھلاہواہو اور چہرہ دھو رہے ہوں تو جتنی مقدار انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کے درمیان آتی ہے) اُسے دھونا لازم ہے۔
مسئلہ ۱۲۔ احتیاط واجب کی بناپر چہرہ اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے، اگر چہرہ نیچے سے یا بیچ سے دھونا شروع کرے تو اس کام میں اشکال ہے، البتہ چہرہ دھونے میں بہت زیادہ غورو فکر کرنا لازم نہیں بلکہ کافی ہے کہ پانی چہرے کے اوپری حصّے سے ڈالے اور دونوں طرف پھیلادے گرچہ ٹھڈی خط کی طرح ہو۔
مسئلہ ۱۳۔ چہرے پر پانی وضوکی نیت سے ڈالے البتہ یہ اہم نہیں ہے کہ پانی کس ذریعے سے چہرے پر ڈالے خواہ ہتھیلی میں پانی لیکر ڈالے یا ہاتھ پھیر نے کے ذریعے تمام حصّے تک پانی پہنچائے،یا اپنا چہرہ ٹوٹی کے نیچے رکھ کراوپر سے نیچے کی طرف پانی پہنچائے یا یہ کہ اپنا چہرہ حوز وغیرہ میں ڈباکر پانی پہنچائے اہم یہ ہےکہ چہرہ اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔
مسئلہ ۱۴۔ پانی کا بغیر کسی رکاوٹ کے چہرے تک پہنچنا لازم ہے، البتہ جس شخص کے چہرے پر جبیرہ ہے اِس حکم سے استثناءہے، یعنی وہ شخص جس کے چہر ے پر زخم، پھوڑا یا شکستگی ہو اور اس کے اوپر بینڈڈ وغیرہ لگایاہو ا ہو، اس شخص کے لئے جائز ہے کہ جبیرہ کی جگہ دھونے کے بجائے جبیرہ کے اوپر گیلا ہاتھ پھیرے اور جبیرہ کا ہٹانا اگر زیادہ مشقت، حرج یا نقصان کا باعث ہےتو لازم نہیں ہے۔
دوسرا: دایاں ہاتھ دھونا اور اس کی مقدار کہنی سے انگلیوں کے سرے تک ہے۔
مسئلہ ۱۵۔ ہاتھوں کو کہنی سے دھونا شروع کرے انگلیوںکے سرے پر ختم کرے اس لئے انگلیوں سے یا ہاتھ کے بیچ سے دھونا شروع کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۔ ہاتھوں کے دھونے میں وضو کی نیت لازم ہے اور یہ کہ گذشتہ طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے دھوئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ کھال تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو اس لئے وہ عورت جو زینت کےلئے ناخن پالش کا استعمال کرتی ہے، یا وہ مر د جو اپنے کام میں تیل کا استعمال کرتاہے یا پینٹر جس کے ہاتھ میں رنگ لگاہوا ہے وغیرہ ان سب پر لازم ہے کہ وضو کر تے وقت ان رکاوٹوں کے برطرف ہونے کا اطمینان حاصل کریں۔
البتہ جس کے ہاتھ پر جبیرہ ہو اسی تفصیل کے مطابق جو چہرے کے دھونے میں بیان ہوئی اس حکم سے استثناءہے۔
تیسرا: بایاں ہاتھ اسی طریقے سے دھوئے جس طرح دائیں ہاتھ کے بارے میں بیان ہوا۔
چوتھاـ : سر کے اگلے حصّے کا مسح اور اس کی مقدار سر کے اوپری حصّے سے پیشانی کے اوپری حصّے ( سے پہلے) تک ہے اور چوڑائی میں ایک انگلی کی چوڑائی کی مقدار مسح کریں گرچہ بہتر ہے کہ تین ملی ہوئی انگلیوں کی مقدار چوڑان سے مسح کریں۔
مسئلہ ۱۷۔ سرکی کھال پر مسح ضروری نہیں ہے بلکہ اس پر جمے ہوئے بالوں پر بھی مسح کافی ہے بشرطیکہ سامنے کے ان بالوں پر مسح کرے جو کنگھی کرنے یا پھیر نے سے سرکے سامنے والے حصّے سے خارج نہ ہوں ۔
مسئلہ۱۸۔ ہاتھوں میں بچی ہوئی تری سے مسح کرنا واجب ہے اور بہتر ہےکہ دائیں ہاتھ کی تری سے انجام دے لیکن اگر گرمی یا کسی اور وجہ سے وضو کرنے والے کے دونوں ہاتھ کہنی سے لیکر انگلیوں کے سرے تک خشک ہوجائیں تو داڑھی کی تری لیکر مسح کر سکتاہے اور کسی دوسرے پانی سے مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ وضو کو تکرار کرنے کے بعد بھی لازم مقدار تری کو محفوظ نہ کرسکتاہو۔
مسئلہ ۱۹۔ اگر مسح کرنے والے یا مسح کئےجانے والے عضو کے درمیان کوئی چیزحائل ہو تو مسح صحیح نہیں ہے گرچہ وہ حائل بہت نازک ہو اور تری پہو نچنے میں رکاوٹ نہ بنے لیکن اگر جبیرہ ہے تو اس حکم سے استثنا ء ہے، خود جبیرہ پر مسح کرنا کافی ہے۔
پانچواں : دائیں پیر کا مسح اور اس کی مقدار لمبائی میں پاؤ ں کی کسی ایک انگلی سے لیکر پاؤں کی اُبھری ہوئی جگہ تک ہے بلکہ احتیاط واجب کی بناپر جوڑ (ٹخنہ)تک مسح کرے۔
اور چوڑائی میں اتنی مقدار ہونا کافی ہے جس پر مسح صادق آئے گرچہ ایک انگلی کی چوڑان کی مقدار ہو۔
مسئلہ ۲۰ ۔ پیر کا مسح اس تفصیل کے مطابق جو سرکے مسح میں بیان ہوئی ہاتھوں میں بچی ہوئی تری سے ہونا چاہئے اور بہتر ہے کہ دائیں ہاتھ سے مسح کرے گرچہ بائیں ہاتھ سے مسح کر نابھی جائز ہے۔
مسئلہ۲۱۔ اگر مسح کرنے والے اور مسح کئے جانے والے عُضو کے درمیان کوئی چیزحائل ہو تو مسح صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ وہ حائل جبیرہ ہو جیسا کہ سر کے مسح میں بیان کیاگیا۔
چھٹا: بائیںپیر کا مسح ، اسی طریقے سے انجام دے جس طرح دائیں پیر کا مسح انجام دیاہے اور بہتر ہے کہ بائیں ہاتھ سے بائیں پیر کا مسح انجام دے گرچہ دائیں ہاتھ سے بھی کرنا جائز ہے۔
مسئلہ۲۲۔ وضو میں چند شرائط ہیں:
۱۔ نیت کرے، یعنی وضو کرنے کا مقصد خداوند متعال کی اطاعت ہو۔
۲۔ وضو کا پانی پاک ہو، نجس پانی سے وضو صحیح نہیں ہے۔
۳۔ وضو کا پانی مباح ہو، غصبی پانی سے وضوصحیح نہیں ہے۔
۴۔ وضو کا پانی مطلق ہو، مضاف پانی جیسے کیوڑاوغیرہ سے وضو صحیح نہیں ہے۔
۵۔ اعضائے وضو پاک ہو ں یعنی اعضائے وضو میں سے ہر ایک دھونے اور مسح کرنے سے پہلے پاک ہونا چاہئے۔
۶۔ وضو کے لئے پانی کے استعمال کی کوئی شرعی ممانعت نہ ہو وگرنہ تیمم واجب ہوگا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
۷۔ تر تیب کی رعایت کرے یعنی چہرہ دھونے سے وضوکی شروعات کرے اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھوئے، اس کے بعد سر پھر پیر کا مسح کرے اور احتیاط لازم کی بناپر بائیں پیر کا مسح دائیں پیر سے پہلے انجام نہ دے البتہ دونوں پیر کا ساتھ میں مسح کرنا جائز ہے۔
۸۔ عرف کی نگاہ میں وضو کے افعال پے در پے انجام دے، البتہ مختصر فاصلے میں جو ایک عضو کے دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں معمو لاًپیش آتاہے حرج نہیں ہے، اور اگر کوئی اتفاق پیش آئے جیسے پانی ختم ہوجا نا یا بھول جانا تو اس صورت اگر بعد والا عضو پہلے والے عضو کے خشک ہونے سے پہلےدھولے تو کفایت کرے گا۔
۹۔ وضو کرنے والا شخص وضو کے تمام افعال خود انجام دے لیکن مجبوری کی حالت میں جن افعال کو خود انجام نہیں دے سکتا، اس کے لئے دوسرے سے مدد لے سکتاہے البتہ اس صورت میں مسح اپنے ہی ہاتھ سے کرے لیکن اگر کسی عذر کی بنا پر جیسے کہ معلول وغیرہ اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو مدد کرنے والا شخص اس کے ہاتھوں سے تری لیکر مسح انجام دے۔
مسئلہ ۲۳۔ وہ امور جن کے سبب وضو باطل ہوجاتاہے :
۱۔ پیشاب کا خارج ہونا۔
۲۔ پاخانہ خارج ہونا۔
۳۔ معدے کی ریاح پاخانے کے مقام سے خارج ہونا۔
۴۔ نیند جو حواس پر غالب آئے یعنی آنکھیں نہ دیکھیںاورکان نہ سنیں اور دوسری چیزوںکو بھی درک نہ کر پا رہا ہو اور جن چیزوں سے عقل زائل ہو جاتی ہے اس کا بھی حکم نیند کی طرح ہے جیسے دیوانگی، بیہوشی وغیرہ۔
۵۔ عورت کا خون استحاضہ جس کے احکام بعد میں بیان ہوں گے۔
۶۔ جنابت وضو کو باطل کرتی ہے اگرچہ جنابت کی وجہ سے صرف غسل واجب ہوتاہے جس کے احکام بعد میں بیان ہون گے۔
مسئلہ ۲۴۔ پیشاب پاخانہ اور ریاح کے خارج ہونے کے سبب وضو باطل ہونے کے حکم سے ایک مقام کو استثناء کیا گیاہے اور وہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ءہو جس کی وجہ سے ان چیزوں کے خارج ہونے سے خود کو روک نہ سکتاہو تو ایسے شخص کو دائم الحدث ( ہمیشہ حدث میں رہنے والا) کہتے ہیں، پس اگر پے درپے اس سے حدث اس طرح خار ج ہو رہا ہو کہ اتنی مہلت بھی نہ ملتی ہو جس میں وضو کرکے نماز کا کچھ حصّہ بھی پڑھ سکے تو اسے چاہئے کہ وضو کرکے نماز پڑھے اور نما ز کے دوران جو کچھ اس سے خارج ہو اس پر توجہ نہ کرے اور ایسا شخص جب تک کوئی دوسرا حدث اس سے خارج نہ ہو اپنی طہارت پر باقی رہے گا۔
مسئلہ ۲۵۔ نماز اور ہر اس عبادت کے لئے جس میں حدث اصغر سے پاک ہونا شرط ہے۔ وضو کرنا واجب ہے، جو شخص بغیر وضو ہے اس کےلئے بدن کے کسی بھی حصّے کو قرآن کے خط سے مس کرنا جائز نہیں ہے بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر بدن کے کسی حصّے کو اسم جلالہ ( اللہ) اور اس کی مخصوص صفات سے بھی مس نہ کرے۔