سوال و جواب » تلاش کریں (منی)
۳۱
سوال: اگر روزے میں خود بخود منی اپنی جگہ سے باہر نکل آئے تو کیا روزہ باطل ہو جاتا ہے؟ اور اگر یہ اتفاق دن میں دو تین بار یا اس سے زیادہ ہو تو کیا ہر بار غسل کرنا ضروری ہے؟
جواب: روزہ باطل نہیں ہوتا مگر غسل کرنا ضروری ہے۔
روزہ
۳۲
سوال: سعودی عربیہ کی حکومت نے قربانی کی جگہ کو منی سے مشعر کی طرف منتقل کر دیا ہے، آپ کا کیا حکم ہے کیا حاجی اس دن (عید قربان) سعودی کے علاوہ اپنے گھر میں حج کی نیت سے قربانی کر سکتا ہے؟
جواب: ذبح کے موجودہ مکان پر قربانی کرنا کافی ہے۔
ذبح
۳۳
سوال: اگر روزے کی حالت میں اپنی بیوی یا کسی اور کے ساتھ ایسا کام کرے جس سے منی خارج ہو تو روزہ باطل ہو جاۓ گا؟
جواب: اگر مرد جان بوجھ کر عورت کے ساتھ ایسا کام کرے جس سے منی خارج ہو مثلا بوسہ لے، یا مس کرے تو قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہے۔
اور اگر عورت کے ساتھ چھیڑخوانی کرنے سے بغیر قصد کے منی خارج ہو جب کہ ایسا سابقہ نہ رہا ہو لیکن معقول احتمال دے رہا تھا کہ منی خارج ہو جاۓ گی تو قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہے۔
اور اگر عورت کے ساتھ چھیڑخوانی کرنے سے بغیر قصد کے منی خارج ہو جب کہ ایسا سابقہ نہ رہا ہو بلکہ مطمئن رہا ہو کے منی خارج نہیں ہوگی لیکن اتفاقا منی خارج ہو جاۓ تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا، قضاء اور کفارہ بھی نہیں ہے۔
روزہ
اور اگر عورت کے ساتھ چھیڑخوانی کرنے سے بغیر قصد کے منی خارج ہو جب کہ ایسا سابقہ نہ رہا ہو لیکن معقول احتمال دے رہا تھا کہ منی خارج ہو جاۓ گی تو قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہے۔
اور اگر عورت کے ساتھ چھیڑخوانی کرنے سے بغیر قصد کے منی خارج ہو جب کہ ایسا سابقہ نہ رہا ہو بلکہ مطمئن رہا ہو کے منی خارج نہیں ہوگی لیکن اتفاقا منی خارج ہو جاۓ تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا، قضاء اور کفارہ بھی نہیں ہے۔
۳۴
سوال: الف۔ اگرکوئی ماہ مبارک رمضان میں جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کرے جس سے اسکی منی نکل جائے تو کیا اسے ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے؟
ب۔ سینے کے بلغم کو اندر لے جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: االف۔ اگر یہ جانتا تھا کہ اس کام سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور جاہل مقصر و مشکوک کے لیے بھی یہی حکم ہے اور کفارہ یہ ہے کہ ۶۰ روز روزہ رکھے یا ۶۰ فقیر کو کھانا کھلائے یا انہیں ۷۵۰ گرام آٹا ہا گیہوں دے۔
روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن احتیاط مستحب ہیکہ اندر نہ لے جاۓ۔
روزہ
روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن احتیاط مستحب ہیکہ اندر نہ لے جاۓ۔
۳۵
سوال: ماہ مبارک رمضان میں اگر منی نکلتے وقت نیند سے آنکھ کھل جائے تو کیا منی نکالنا جائز ہے؟ رمضان کے علاوہ استمناء کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس حالت میں منی کا باہر نکالنا جائز ہے۔ استمناء ہر حالت میں حرام ہے۔
روزہ
۳۶
سوال: اگر کوئی روزہ دار اپنی بیوی کے ساتھ نزدیکی کرے اور اس سے مزاق کرے جبکہ وہ چاہتا ہو کہ منی باہر نہ آئے اور یہ جانتا ہو کہ منی نکلنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے اور بے اختیار منی نکل جائے (جبکہ پہلے بھی اس طرح کے کام سے منی نکل جایا کرتی تھی) تو اس کا روزہ باطل ہے یا نہیں؟ کفارہ کیا ہوگا؟ اگر کفارہ واجب ہے تو کتنا؟
جواب: اس کا روزہ باطل ہے اوراگر اس کو مسئلہ کا علم تھا تو قضاء کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہے، احتیاط واجب کی بنا پر جاہل مقصر اور شک کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
روزہ
۳۷
سوال: بسمہ تعالیٰ
جناب مرجع دینی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہم متمنی ہیں کہ آپ کتاب نھج البلاغہ کے بارے میں چند کلمات ذکر فرمایئں ۔
پروردگار آپ کو اسلام و مسلمین کے لیے تا دیر ذخیرہ بنائے۔
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس کتاب شریف میں مولانا امیر المومنین (ع) کے کلام میں سے جو کچھ بھی وارد ہوا ہے وہ اللہ اور اسکے نبی مصطفیٰ (ص) کے کلام کے بعد۔بلند ترین کلام شمار ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں غور و فکر کرنےاور کائنات کی حقیقت اور اس میں تامل کا فطری منھج بیان ہوا ہے۔ اصولِ اسلام اور اسکے معارف اور حکم ِ زندگی کی وضاحت ہے،اور ایسی سنتوں و سیرتوں کا بیان ہے کہ جن کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نفس کے تزکیہ اور اسکی ریاضت کا بھی بیان ہے ۔اس میں مقاصد شریعت اور وہ چیزیں کے جن پر احکام کی بنیاد ہے واضح کردی گئی ہیں، اور حکمرانی کے آداب و شرائط و استحقاق کی یاد دہانی بھی ہے اوراللہ تعالیٰ کی ثناء اور اسکے سامنے دست دعاء پہیلانے کے اسلوب کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور اسکے سوا اوربھی بہت کچھ ہے۔
جیسا کہ ایک جہت سے یہ کتاب تاریخ ِاسلامی اور جو حادثات بعد نبی (ص) خاص طور پر خلافت امام (ع) میں واقع ہوئے ان سب کا ایک سچا آینہ ہے اسی طرح اس میں امام ؑکی سیرت حیات، انکے اخلاق و عادات،انکے علم و فقھ کی جوانب بھی متضمن ہیں۔یہ کتاب کھلی دعوت ہے تمام مسلمانوں کے لیے تا کہ وہ اپنے دینی امور میں کسبِ نور کریں اس کتاب سے سیکھیں اور اپنا تزکیہ کریں۔ اور بالخصوص نوجوانوں کو اسکے مطالعہ کے ذریعے اس میں تدبر سے اور اسے کسی حد تک حفظ کر کے اس کتاب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بہت ہی مناسب ہے ان لوگوں کے لیے جومحبت ِ امام (ع) کا دعوہ رکہتے ہیں اور تمنی کرتے ہیں کہ کاش وہ امام (ع) کے زمانے میں ہوتے تو خود امام (ع) کے موعظے کو سنتے، اور ان کی ہدایت سے سرفراز ہوتے۔
ان ہی کی نھج پر گامزن ہوتے ۔انہیں چاہیے کے وہ یہ سب کام اس کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں۔ بیشک جیسا کے امام (ع) نے جنگ جمل میں فرمایا تھا کہ یقینا انکے ساتھ اس جنگ میں وہ لوگ بھی حاضر ہوگئے ہیں کہ جو ابھی مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں موجود ہیں ۔امام (ع) کی مراد وہ لوگ تھےکہ جن کی صدق ِ نیت کو خدا نے جان لیا تھا کہ وہ امام(ع) کے ساتھ ان کے زمانے میں حاضر ہونے اور انکی اقتدا کی تمنیٰ رکھتے ہوں گے۔اور یہی وہ لوگ ہونگے جو ان کے اولیاء کے ساتھ اس دن محشور ہونگےکہ جب ہر انسان کو اس کے امام کے پیچھے محشور کیا جائے گا۔ ایسا فقط اس لیے کہ وہ لوگ جس حق کو پہچانتے ہونگے اس پرعمل کرنے میں شبھات کے بہانے نہ تلاش کرتے ہونگے اور نہ ہی امام (ع) سے تعلق کی خالی کھوکلی تمنیٰ سے اپنی زیب و زینت کرتےہونگے۔مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ امام(ع) نے ان جیسوں کے لیے جو ذمہ داری بیان کی ہے اس کی تطبیق کریں، آثار ِ امام(ع) کی پیروی کریں اپنے اعمال و سلوک میں امام (ع) کے نشان ِ قدم پر چلیں،اور اپنے آپ کو امامؑ کے ولات امر و عمال کی طرح تصور کریں تاکہ خود ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ منھج اور اسوہ امام(ع) سے کس قدر وابستہ ہیں۔
ہم اللہ العلی القدیر سے دعاگو ہیں کہ ہم سب کو بدست خود اتباع ہدیٰ و اجتناب ِ ھویٰ کی راہ پر گامزن کردے کہ بیشک وہی ولی التوفیق ہے۔
علی الحسینی السیستانی
۲۶ رجب ۱۴۳۳ھ
نہج البلاغہ
اس کتاب شریف میں مولانا امیر المومنین (ع) کے کلام میں سے جو کچھ بھی وارد ہوا ہے وہ اللہ اور اسکے نبی مصطفیٰ (ص) کے کلام کے بعد۔بلند ترین کلام شمار ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں غور و فکر کرنےاور کائنات کی حقیقت اور اس میں تامل کا فطری منھج بیان ہوا ہے۔ اصولِ اسلام اور اسکے معارف اور حکم ِ زندگی کی وضاحت ہے،اور ایسی سنتوں و سیرتوں کا بیان ہے کہ جن کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نفس کے تزکیہ اور اسکی ریاضت کا بھی بیان ہے ۔اس میں مقاصد شریعت اور وہ چیزیں کے جن پر احکام کی بنیاد ہے واضح کردی گئی ہیں، اور حکمرانی کے آداب و شرائط و استحقاق کی یاد دہانی بھی ہے اوراللہ تعالیٰ کی ثناء اور اسکے سامنے دست دعاء پہیلانے کے اسلوب کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور اسکے سوا اوربھی بہت کچھ ہے۔
جیسا کہ ایک جہت سے یہ کتاب تاریخ ِاسلامی اور جو حادثات بعد نبی (ص) خاص طور پر خلافت امام (ع) میں واقع ہوئے ان سب کا ایک سچا آینہ ہے اسی طرح اس میں امام ؑکی سیرت حیات، انکے اخلاق و عادات،انکے علم و فقھ کی جوانب بھی متضمن ہیں۔یہ کتاب کھلی دعوت ہے تمام مسلمانوں کے لیے تا کہ وہ اپنے دینی امور میں کسبِ نور کریں اس کتاب سے سیکھیں اور اپنا تزکیہ کریں۔ اور بالخصوص نوجوانوں کو اسکے مطالعہ کے ذریعے اس میں تدبر سے اور اسے کسی حد تک حفظ کر کے اس کتاب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بہت ہی مناسب ہے ان لوگوں کے لیے جومحبت ِ امام (ع) کا دعوہ رکہتے ہیں اور تمنی کرتے ہیں کہ کاش وہ امام (ع) کے زمانے میں ہوتے تو خود امام (ع) کے موعظے کو سنتے، اور ان کی ہدایت سے سرفراز ہوتے۔
ان ہی کی نھج پر گامزن ہوتے ۔انہیں چاہیے کے وہ یہ سب کام اس کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں۔ بیشک جیسا کے امام (ع) نے جنگ جمل میں فرمایا تھا کہ یقینا انکے ساتھ اس جنگ میں وہ لوگ بھی حاضر ہوگئے ہیں کہ جو ابھی مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں موجود ہیں ۔امام (ع) کی مراد وہ لوگ تھےکہ جن کی صدق ِ نیت کو خدا نے جان لیا تھا کہ وہ امام(ع) کے ساتھ ان کے زمانے میں حاضر ہونے اور انکی اقتدا کی تمنیٰ رکھتے ہوں گے۔اور یہی وہ لوگ ہونگے جو ان کے اولیاء کے ساتھ اس دن محشور ہونگےکہ جب ہر انسان کو اس کے امام کے پیچھے محشور کیا جائے گا۔ ایسا فقط اس لیے کہ وہ لوگ جس حق کو پہچانتے ہونگے اس پرعمل کرنے میں شبھات کے بہانے نہ تلاش کرتے ہونگے اور نہ ہی امام (ع) سے تعلق کی خالی کھوکلی تمنیٰ سے اپنی زیب و زینت کرتےہونگے۔مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ امام(ع) نے ان جیسوں کے لیے جو ذمہ داری بیان کی ہے اس کی تطبیق کریں، آثار ِ امام(ع) کی پیروی کریں اپنے اعمال و سلوک میں امام (ع) کے نشان ِ قدم پر چلیں،اور اپنے آپ کو امامؑ کے ولات امر و عمال کی طرح تصور کریں تاکہ خود ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ منھج اور اسوہ امام(ع) سے کس قدر وابستہ ہیں۔
ہم اللہ العلی القدیر سے دعاگو ہیں کہ ہم سب کو بدست خود اتباع ہدیٰ و اجتناب ِ ھویٰ کی راہ پر گامزن کردے کہ بیشک وہی ولی التوفیق ہے۔
علی الحسینی السیستانی
۲۶ رجب ۱۴۳۳ھ
۳۸
سوال: ہمارے علاقے میں نواسہ رسولؑ اور انکے اصحاب کی شھادت کی مناسبت سے پر ہجوم ماتم داریاں و مجالس عزاء منعقد ہوتی ہیں اور مومنین حب اہل بیتؑ میں فداء ہونے کے جذبے سے سرشار ہو کر شرکت بھی کرتے ہیں اور باسخاوت تعاون بھی کرتے ہیں، اب جبکہ ایک ہی وقت میں کئی ایک مجالس عزاء منعقد ہورہی ہوتی ہیں اور اکثر مجالس میں نیاز چاول وغیرہ تقسیم ہوتا ہے اور یہ سلسلہ صبح سے دن بھر جاری رہتا ہے تو اس فراوانی میں کھانے کی بڑی مقدار کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی جاتی ہے، تو اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: تبذیر (نعمت کا ضایع کرنا)، باعث غضب ہے اور شرعا حرام بھی لھٰذا ضروری ہے کہ ہر وہ اقدام کیا جائے کہ جس کے ذریعے اسکو روکا جاسکے چاہے یہ کام انتظامات کرنے والے اشخاص کے ساتھ صلاح و مشورے کے ذریعے ہو۔
شعایر حسینیہ
۳۹
سوال: بسا اوقات بعض مومنین ماہ محرم و صفر یا بلکہ تمام ایام عزاء میں کچھ ایسے کام انجام دیتے ہیں کہ جو غیر مناسب ہوتے ہیں جیسا کہ شادی بیاہ نئے گھر میں منتقل ہونا، نئے سامان کی خریداری کرنا جیسا کے نیا فرنیچر یا نئے کپڑے وغیرہ لینا یا بدن و لباس کی زیب و آرائیش کرنا یا نئے منصوبوں کی ابتداء کرنا وغیرہ تو اس سلسلے میں مناسب شرعی موقف کیا ہونا چاہیے؟
جواب: یہ تمام کام شرعاً حرام نہیں ہیں جب تک کہ ان سے ایام عزاء کی ہتک حرمت نہ ہوتی ہو جیسا کہ روزعاشوراء خوشیاں منانا اور زیب و آرائیش کرنا،البتہ مناسب یہ ہے کہ انسان اہل بیتؑ کے ایام مصیبت میں ان کاموں کی انجام دہی سے اجتناب کرے کہ جو کام عام طور پر وہ اپنے احباب کی مصیبت میں بھی انجام نہیں دیتا مگر یہ کے عرفاً ضروری کام ہو۔
شعایر حسینیہ
۴۰
سوال: ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
مرجع دینی محترم سید علی السیستانی(مدظلہ)
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ ۔۔اللہ آپ کو مصیبت امام حسین ؑ میں اجر عظیم عطاء فرمائے۔
اب جبکہ ہم لوگ چہلم امام مظلوم سید شہداء علیہ سلام کی مناسبت سے کربلاء مقدسہ کی طرف روانہ ہو رہے ہیں تو اس سلسلے میں آپ کے پدرانہ نصیحت کے محتاج ہیں جو خاص طور پر اس مناسبت کے لیے ہو تاکہ اس زیارت کا فائدہ بہتر اور اجر عظیم تر ہوجائے اور جن امور سے ہم غافل ہیں یا جن چیزوں کے اجر و ثواب کو ہم نہ جانتے ہوں ان کے بارے میں ایک تنبیہ ہو جائے ساتھ ہی ہم امید کرتے ہیں کے یہ ارشادات معاشرے کے ہر طبقے کے افراد کے لیے ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپکے وجود مبارک کی نعمت تا دیرباقی رکھے۔
از طرف مجموعہ مومنین۔
نیا سوال بھیجنے کے لیے یہاں کلیک کریں
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین۔
جن مومنین کو اللہ تعالی نے اس زیارت ِشریفہ کی توفیق دی ہے انہیں اس بات کی طرف توجہ ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے انبیاء و اوصیاء قرار دیے تاکہ وہ لوگوں کے لیے اسوہ و نمونہ عمل اور ان پر اللہ کی حجت قرار پائیں اور ایسا اس لیے ہے کہ لوگ انکے افعال کی اقتداء کرتے ہوئے انکی تعلیمات سے ہدایت حاصل کریں اور اسی نے ان کے ذکر کو باقی رکھنے اور ان کے مقام و منزلت کو بلند رکھنے کے لیے ان کی زیارت کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی تاکہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ اور اسکی تعلیمات و احکام کا تذکرہ باقی ر ہے۔ اور بیشک یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں کہ جو پروردگار کی اطاعت،اسکی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین ِقویم کی خاطر قربانی دینے میں بہترین نمونہ ہیں۔
اسی بنا پر اس زیارت کے تقاضوں میں سے ہے کہ امام حسین ؑ کی فی سبیل اللہ قربانی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کی تعلیمات جیسا کہ نماز،حجاب،اصلاح،عفو و درگزر حلم،ادب،حرمات الطریق(عام راستوں پر حق عام کا خیال رکہنا) اور دیگر تمام اعلیٰ معانی کی رعایت ہونی چاہیے،تاکہ یہ زیارت بفضل خداوند تعالیٰ ان اچھے آداب و اقدار کی تربیت دینے کے لیے ایک ایسا قدم ہو سکے جس کے آثار دائمی و تا دیر برقرار رہیں حتی کہ مستقبل میں آنے والی زیارتوں کے لیے بھی یادگار رہیں اور یہاں یہ واضح رہے کہ ان زیارتوں میں حاضر ہونا خود امام (ع) کی مجالس تعلیم و تربیت میں حاضر ہونے جیسا ہے۔
ہمیں اگرچہ دورِ حضور آئمۃ اہل بیت ؑتو حاصل نہیں ہوا کہ ہم خود ان سے سیکھتے اور تربیت حاصل کرتے اور ان کے دست مبارک سے پرورش پاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انکی تعلیمات اور ان کے طرز عمل کو محفوظ فرمایا اور ہمیں انکے مشاہد و مزارات کی زیارت کا شوق عطاء کیا تاکہ وہ ہمارے لیے روشن مثالیں قرار پائیں اور ساتھ ہی اس زیارت کے ذریعے ہمارے اس دعوے کی سچائی کا امتحان بھی مقصود ہے کہ جو ہم ان حضرات کی محبت کی تمنیٰ کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم انکی تعلیمات و موعظۃ کو کس قدر قبول کرتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے آئمۃ ؑ کے ساتھ رہنے والوں کا امتحان لیا تھا ۔
اب ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ہمارا شوق حقیقت میں غیر صادق تو نہیں، ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگر ہم ویسے ہی بن جائیں کہ جیسا اہل بیت ؑ چاہتے ہیں تو امید ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ زندگی گزارنے والے ساتھیوں میں ہی محشور ہوں گے۔
جناب امیر المومنین ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ ؑ نے جنگ جمل کے موقع پر فرمایا:(یقیناً ہمارے ساتھ اسوقت وہ لوگ بھی حاضر ہیں کہ جو ابھی تک مردوں کے صلب اور عورتوں کے شکم میں موجود ہیں)۔ پس ہم میں سے جو بھی تمناء اہل بیت ؑ میں سچا ہوگا اسکے لیے دشوار نہ ہوگا کہ تعلیمات اہل بیت ؑ پر عمل کرے اور انہی کی اقتداء کرے تاکہ وہ ان حضرات کی پاکیزگی سے تذکیہ حاصل کرے اور ان کے آداب سے آراستہ ہو جائے۔
اللہ اللہ نماز کا خیال کیا جائے!!جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ یہ عمود (ستون) دین اور معراج مومنین ہے اگر یہ قبول ہوگئی تو باقی سب بھی قبول ہوگا اور اگر یہ رد ہوگئی تو پھر باقی سب اعمال رد ہوجائیں گے،مناسب ہے کہ نماز کی پابندی اول وقت میں کی جائے،چوں کہ اللہ کامحبوب ترین بندہ وہ ہے جو اسکی نداء پر سب سے پہلے لبیک کہے۔اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مومن اول وقت نماز میں کسی اور اطاعت گزاری کے کام میں مشغول ہو۔یہ نماز سب سے افضل اطاعت ہے۔اور اہل بیت ؑ سے وارد ہوا ہے کے (ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی جانتےہوں)۔اورخود امام حسین ؑ بھی یوم عاشوراء بھی نماز کا خاص خیال کرتے ہوے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ اس شخص سے فرمایا جس نے اول وقت میں نماز کو یاد کیا تھا( تم نے نماز کو یاد کیا ،اللہ تمہیں مصلینِ میں سے قرار دے) پھر امام ؑ نے تیروں کی بارش میں میدان قتال میں نماز ادا کی۔
اللہ اللہ اخلاص کا سوچیں! کیوں کہ انسان کے عمل کی قدر و قیمت اور اسکی برکت اس ہی مقدار میں ہے کہ جتنی مقدار میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا اخلاص ہوگا ۔بیشک اللہ تعالیٰ تو صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتا اس کے لیے ہو اور اس کے غیر کی طلبگاری سے خالی ہو۔اور نبی اکرمﷺ سے یہ جملہ مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کے وقت وارد ہوا کہ یقیناً جو کوئی اللہ ورسول کی طرف مہاجر ہوا تو اسکی ہجرت اللہ کے لیے ہوئی،اور جو دنیا کی جانب مہاجر ہوا تو اسکی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ یقیناً عمل کے ثواب کو درجہ اخلاص کے حساب سے بڑھا دیتا ہے حتی کہ سات سو گنا اضافہ بھی کردیتا ہے،اور اللہ تو جس کے لیے چاہے اضافہ کرتا ہے۔
بس زائرین کو چاہیے کہ راہ زیارت میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں اور اپنے ہر قدم، ہر عمل میں اخلاص پیدا کریں اور یہ بات جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوایسی کوئی نعمت مرحمت نہیں فرمائی کہ جیسی نعمت اعتقاد، قول اور فعل میں اخلاص کی نعمت ہے۔بغیر اخلاص انجام دیا جانے والا عمل اس زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے خالص عمل مبارک و دائمی ہوگا ،جو اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد بھی باقی رہے گا۔
اللہ اللہ پردہ و حجاب کا خیال رہے،بیشک یہ وہ اہم ترین چیز ہے کہ جسکا اہل بیت علیہم السلام نے خیال رکہا حتی کہ کربلاء میں ان شدید مصائب میں بھی اہتمام کیا اور وہ اس معاملے میں مثل اعلیٰ ہیں۔اور انہوں نے دشمنوں کے حملوں سے بھی اتنی اذیت نہیں اٹھائی کہ جتنی تکلیف لوگوں کے سامنے بے پردگی و ہتک حرمت سے انہیں ہوئی۔لہذا تمام زوّار خاص طور پر مومنات پر لازم ہے کہ وہ اپنے لباس اور اپنے تمام افعال میں عفت کے تقاضوں کو پورا کریں اور ہر اس چیز سے اجتناب کریں کہ جو اس تقاضہ عفت کے خلاف ہو جیسا کہ تنگ لباس زیب تن کرنا، لوگوں میں ایسے مخلوط ہونا کے جو باعث مذمت ہو،یا ایسی زینت کرنا کے جس سے منع کیا گیا ہے ۔بلکہ اس عظیم زیارت، ان شعائر مقدسہ کو ہر قسم کی نامناسب تہمتوں سے دور رکہنے کے لیے، منافی عفت چیزوں سے ہر ممکن اورآخری درجہ تک اجتناب کرنا چاہیے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے ملتمس ہیں کے نبی المصطفیٰ ﷺاور انکے اہل بیت کے مقام کو دنیا وآخرت میں مزید بلند فرما ئےان قربانیوں کی بناء پر جو انہوں نے اسکی راہ میں دیں اور وہ جدوجہد جو اسکی خلق کی ہدایت کے لیے کی۔اور ان پر وہ عظیم صلوات نازل فرما کہ جیسی انسےپہلےمصطفین،بالخصوص ابراہیم وآل ابراہیم (علیھم السلام)پر نازل کی۔اور اس ذات تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ زوارِ ابی عبداللہ الحسین (ع) کی زیارت میں برکت عطاء فرمائے اور جو قبولیت وہ اپنے عباد صالحین کے عمال میں دیتا ہے اس زیارت کو اس سے بھی افضل شرف قبولیت عطاء فرمائے۔تاکہ زائرین اس زیارت اور اسکے بعد کی زندگی میں اپنے سیر وسلوک کے ساتھ دوسروں کے لیے ایک مثال بن جائیں۔اور انکو اہل بیت(علیھم السلام) سے انکی ولایت و محبت، اپنی زندگی میں انہی کی اقتداء کرنے، اور پیغام اہل بیت کی تبلیغ کرنے پر جزائے خیر عنایت فرمائے ۔امید ہے کہ انہیں روز قیامت اہل بیت (ع) کے ساتھ بلایا جائے گا جیسا کہ ہر شخص کو اسکے امام کے ساتھ بلایا جاۓ گا، اور ان کے شھداء کو شھداء امام حسین (ع) اور انکے اصحاب کے ساتھ محشور فرمائے چونکہ انہوں نے اپنے نفسوں کو قربان کیا اور ولایت کی خاطر ظلم و ستم سہے۔بیشک کہ وہ بہت سننے والا اور جواب دینے والا ہے۔
ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین۔
جن مومنین کو اللہ تعالی نے اس زیارت ِشریفہ کی توفیق دی ہے انہیں اس بات کی طرف توجہ ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے انبیاء و اوصیاء قرار دیے تاکہ وہ لوگوں کے لیے اسوہ و نمونہ عمل اور ان پر اللہ کی حجت قرار پائیں اور ایسا اس لیے ہے کہ لوگ انکے افعال کی اقتداء کرتے ہوئے انکی تعلیمات سے ہدایت حاصل کریں اور اسی نے ان کے ذکر کو باقی رکھنے اور ان کے مقام و منزلت کو بلند رکھنے کے لیے ان کی زیارت کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی تاکہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ اور اسکی تعلیمات و احکام کا تذکرہ باقی ر ہے۔ اور بیشک یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں کہ جو پروردگار کی اطاعت،اسکی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین ِقویم کی خاطر قربانی دینے میں بہترین نمونہ ہیں۔
اسی بنا پر اس زیارت کے تقاضوں میں سے ہے کہ امام حسین ؑ کی فی سبیل اللہ قربانی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کی تعلیمات جیسا کہ نماز،حجاب،اصلاح،عفو و درگزر حلم،ادب،حرمات الطریق(عام راستوں پر حق عام کا خیال رکہنا) اور دیگر تمام اعلیٰ معانی کی رعایت ہونی چاہیے،تاکہ یہ زیارت بفضل خداوند تعالیٰ ان اچھے آداب و اقدار کی تربیت دینے کے لیے ایک ایسا قدم ہو سکے جس کے آثار دائمی و تا دیر برقرار رہیں حتی کہ مستقبل میں آنے والی زیارتوں کے لیے بھی یادگار رہیں اور یہاں یہ واضح رہے کہ ان زیارتوں میں حاضر ہونا خود امام (ع) کی مجالس تعلیم و تربیت میں حاضر ہونے جیسا ہے۔
ہمیں اگرچہ دورِ حضور آئمۃ اہل بیت ؑتو حاصل نہیں ہوا کہ ہم خود ان سے سیکھتے اور تربیت حاصل کرتے اور ان کے دست مبارک سے پرورش پاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انکی تعلیمات اور ان کے طرز عمل کو محفوظ فرمایا اور ہمیں انکے مشاہد و مزارات کی زیارت کا شوق عطاء کیا تاکہ وہ ہمارے لیے روشن مثالیں قرار پائیں اور ساتھ ہی اس زیارت کے ذریعے ہمارے اس دعوے کی سچائی کا امتحان بھی مقصود ہے کہ جو ہم ان حضرات کی محبت کی تمنیٰ کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم انکی تعلیمات و موعظۃ کو کس قدر قبول کرتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے آئمۃ ؑ کے ساتھ رہنے والوں کا امتحان لیا تھا ۔
اب ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ہمارا شوق حقیقت میں غیر صادق تو نہیں، ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگر ہم ویسے ہی بن جائیں کہ جیسا اہل بیت ؑ چاہتے ہیں تو امید ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ زندگی گزارنے والے ساتھیوں میں ہی محشور ہوں گے۔
جناب امیر المومنین ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ ؑ نے جنگ جمل کے موقع پر فرمایا:(یقیناً ہمارے ساتھ اسوقت وہ لوگ بھی حاضر ہیں کہ جو ابھی تک مردوں کے صلب اور عورتوں کے شکم میں موجود ہیں)۔ پس ہم میں سے جو بھی تمناء اہل بیت ؑ میں سچا ہوگا اسکے لیے دشوار نہ ہوگا کہ تعلیمات اہل بیت ؑ پر عمل کرے اور انہی کی اقتداء کرے تاکہ وہ ان حضرات کی پاکیزگی سے تذکیہ حاصل کرے اور ان کے آداب سے آراستہ ہو جائے۔
اللہ اللہ نماز کا خیال کیا جائے!!جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ یہ عمود (ستون) دین اور معراج مومنین ہے اگر یہ قبول ہوگئی تو باقی سب بھی قبول ہوگا اور اگر یہ رد ہوگئی تو پھر باقی سب اعمال رد ہوجائیں گے،مناسب ہے کہ نماز کی پابندی اول وقت میں کی جائے،چوں کہ اللہ کامحبوب ترین بندہ وہ ہے جو اسکی نداء پر سب سے پہلے لبیک کہے۔اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مومن اول وقت نماز میں کسی اور اطاعت گزاری کے کام میں مشغول ہو۔یہ نماز سب سے افضل اطاعت ہے۔اور اہل بیت ؑ سے وارد ہوا ہے کے (ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی جانتےہوں)۔اورخود امام حسین ؑ بھی یوم عاشوراء بھی نماز کا خاص خیال کرتے ہوے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ اس شخص سے فرمایا جس نے اول وقت میں نماز کو یاد کیا تھا( تم نے نماز کو یاد کیا ،اللہ تمہیں مصلینِ میں سے قرار دے) پھر امام ؑ نے تیروں کی بارش میں میدان قتال میں نماز ادا کی۔
اللہ اللہ اخلاص کا سوچیں! کیوں کہ انسان کے عمل کی قدر و قیمت اور اسکی برکت اس ہی مقدار میں ہے کہ جتنی مقدار میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا اخلاص ہوگا ۔بیشک اللہ تعالیٰ تو صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتا اس کے لیے ہو اور اس کے غیر کی طلبگاری سے خالی ہو۔اور نبی اکرمﷺ سے یہ جملہ مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کے وقت وارد ہوا کہ یقیناً جو کوئی اللہ ورسول کی طرف مہاجر ہوا تو اسکی ہجرت اللہ کے لیے ہوئی،اور جو دنیا کی جانب مہاجر ہوا تو اسکی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ یقیناً عمل کے ثواب کو درجہ اخلاص کے حساب سے بڑھا دیتا ہے حتی کہ سات سو گنا اضافہ بھی کردیتا ہے،اور اللہ تو جس کے لیے چاہے اضافہ کرتا ہے۔
بس زائرین کو چاہیے کہ راہ زیارت میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں اور اپنے ہر قدم، ہر عمل میں اخلاص پیدا کریں اور یہ بات جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوایسی کوئی نعمت مرحمت نہیں فرمائی کہ جیسی نعمت اعتقاد، قول اور فعل میں اخلاص کی نعمت ہے۔بغیر اخلاص انجام دیا جانے والا عمل اس زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے خالص عمل مبارک و دائمی ہوگا ،جو اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد بھی باقی رہے گا۔
اللہ اللہ پردہ و حجاب کا خیال رہے،بیشک یہ وہ اہم ترین چیز ہے کہ جسکا اہل بیت علیہم السلام نے خیال رکہا حتی کہ کربلاء میں ان شدید مصائب میں بھی اہتمام کیا اور وہ اس معاملے میں مثل اعلیٰ ہیں۔اور انہوں نے دشمنوں کے حملوں سے بھی اتنی اذیت نہیں اٹھائی کہ جتنی تکلیف لوگوں کے سامنے بے پردگی و ہتک حرمت سے انہیں ہوئی۔لہذا تمام زوّار خاص طور پر مومنات پر لازم ہے کہ وہ اپنے لباس اور اپنے تمام افعال میں عفت کے تقاضوں کو پورا کریں اور ہر اس چیز سے اجتناب کریں کہ جو اس تقاضہ عفت کے خلاف ہو جیسا کہ تنگ لباس زیب تن کرنا، لوگوں میں ایسے مخلوط ہونا کے جو باعث مذمت ہو،یا ایسی زینت کرنا کے جس سے منع کیا گیا ہے ۔بلکہ اس عظیم زیارت، ان شعائر مقدسہ کو ہر قسم کی نامناسب تہمتوں سے دور رکہنے کے لیے، منافی عفت چیزوں سے ہر ممکن اورآخری درجہ تک اجتناب کرنا چاہیے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے ملتمس ہیں کے نبی المصطفیٰ ﷺاور انکے اہل بیت کے مقام کو دنیا وآخرت میں مزید بلند فرما ئےان قربانیوں کی بناء پر جو انہوں نے اسکی راہ میں دیں اور وہ جدوجہد جو اسکی خلق کی ہدایت کے لیے کی۔اور ان پر وہ عظیم صلوات نازل فرما کہ جیسی انسےپہلےمصطفین،بالخصوص ابراہیم وآل ابراہیم (علیھم السلام)پر نازل کی۔اور اس ذات تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ زوارِ ابی عبداللہ الحسین (ع) کی زیارت میں برکت عطاء فرمائے اور جو قبولیت وہ اپنے عباد صالحین کے عمال میں دیتا ہے اس زیارت کو اس سے بھی افضل شرف قبولیت عطاء فرمائے۔تاکہ زائرین اس زیارت اور اسکے بعد کی زندگی میں اپنے سیر وسلوک کے ساتھ دوسروں کے لیے ایک مثال بن جائیں۔اور انکو اہل بیت(علیھم السلام) سے انکی ولایت و محبت، اپنی زندگی میں انہی کی اقتداء کرنے، اور پیغام اہل بیت کی تبلیغ کرنے پر جزائے خیر عنایت فرمائے ۔امید ہے کہ انہیں روز قیامت اہل بیت (ع) کے ساتھ بلایا جائے گا جیسا کہ ہر شخص کو اسکے امام کے ساتھ بلایا جاۓ گا، اور ان کے شھداء کو شھداء امام حسین (ع) اور انکے اصحاب کے ساتھ محشور فرمائے چونکہ انہوں نے اپنے نفسوں کو قربان کیا اور ولایت کی خاطر ظلم و ستم سہے۔بیشک کہ وہ بہت سننے والا اور جواب دینے والا ہے۔