مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

سوال و جواب » تلاش کریں (منی)

۴۱ سوال: جس شخص کو معلوم نہیں کہ استمناء روزے کو باطل کرتا ہے اور اس نے روزے میں استمناء کیا ہے اس کے روزے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو شخص ماہ رمضان میں اس بات سے جاہل ہوتے ہو‎‎‎ۓ کہ استمناء (خود کے ساتھ ایسا کام کرنا جس سے منی خارج ہو) روزے کو باطل کرتا ہے استمناء کرے اور وہ اپنے جہل میں معذور ہو اور دو دل بھی نہ رہا ہو مثلا کسی ایسے شخص سے سنا ہو جس پر اطمینان رکھتا ہو تو روزہ باطل نہیں ہوگا اور یہی حکم ہے اگر ایسا کام کرے جس سے معمولا منی خارج نہیں ہوتی اور اطمینان بھی رکھتا ہو کہ منی خارج نہیں ہوگی لیکن اتفاقا منی خارج ہو جاۓ۔
لکین جو شخص مبطل ہونے کا علم رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ توبہ اور استغفار کرے، اور اس پر قضاء اور کفارہ دونو واجب ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس صورت میں بھی کفارہ واجب ہے جب حکم سے جاہل ہو اور جہل میں معذور نہ ہو اور دو دل بھی رہا ہو پس ایسے جاہل پر جو اپنے جہل میں معذور ہو یا معذور نہ ہو لیکن یقین رکھتا ہو کہ مبطل نہیں ہے کفارہ واجب نہیں ہے۔
روزہ
۴۲ سوال: مستحب قربانی کے بارے میں کیا احکام و مستحبات ہیں؟
جواب: ۱- جو افراد قربانی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کے لیے اس مستحب کو انجام دینے کی تاکید ہے۔
۲- اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کے پیسے ہوں لیکن جانور مہیا نہ کر سکتا ہو تو اس کی قیمت صدقہ میں دینا مستحب ہے-
۳- انسان اپنے اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ایک جانور قربانی کر سکتا ہے-
۴- دو یا اس سے زیادہ افراد کا شریک ہو کر قربانی کرنا صحیح ہے، بالخصوص اگر جانور کم ہو اور اس کی قیمت زیادہ ہو-
۵- قربانی کا بہترین وقت عید قربان کے دن سورج نکلنے اور نماز عید کی مقدار وقت  گذرنے کے بعد ہوتا ہے-
۶- وہ افراد جو منی میں ہیں ان کے لے چار دن تک قربانی کرنا مستحب ہے، اور جو منی میں نہیں ہیں ان کے لیے تین دن تک مستحب ہے، گر چہ احتیاط مستحب ہے کہ عید قربان کے دن ہی قربانی کریں-
۷- قربانی کا جانور اونٹ، گاے یا بھیڑ ( بکرا) ہونا چاہیےاور احتیاط واجب کی بنا پر پانچ سال سے کم کا اونٹ، دو سال سے کم کی گاے اور بکرا، اور سات مہینے سے کم کی بھیڑ کافی نہیں ہے-
۸- مستحب قربانی میں وہ شرائط و صفات واجب نہیں ہیں جو واجب قربانی میں شرط ہیں ۔پس کانا، لنگڑا کان کٹا یا سینگ ٹوٹا،خصی،یا لاغر جانور کی قربانی دینا جایز ہے۔ اگرچہ احوط(احتیاط سے قریب تر) اور افضل یہ ہے کہ اسکے اجزاء سلامت ہوں اور موٹا ہو، اور مکروہ ہے اپنے پالتو جانور ہی کی قربانی کی جائے۔
۹- بیمار، کمزور اور عیب دار جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے-
۱۰- قربانی کے گوشت کا ایک حصہ خود کے لیے رکھے، اور ایک حصہ مسلمان کو دے اور احتیاط مستحب ہے تیسرا حصہ غریب مسلمانوں کو صدقہ دے-
۱۱- قربانی کی کھال صدقہ کے طور پر دینا مستحب ہے، قصاب کو اجرت کے طور پر دینا مکروہ ہے-
۱۲- قربانی کرنے والے شخص کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے۔
۱۳- میت کے لیے رجاء کی نیت سے قربانی کر سکتے ہیں
۱۴- ایک جانور دو یا چند لوگوں کے لیے قربانی کر سکتے ہیں۔
مستحب قربانی کے احکام
۴۳ سوال: اگر لڑکی کا صرف نکاح ہوا ہو رخصتی نہیں ہوئی ہو اور اس کا طلاق ہو جا‎‎ۓ تو کیا اسے عدت رکھنی ہوگی ؟
جواب: اگر نکاح کے بعد ہمبستری نہیں ہوئی ہے اور منی بھی رحم میں کسی طرح داخل نہیں ہوئی ہے تو عدت رکھنا واجب نہیں ہے
طلاق
۴۴ سوال: توبہ کیسے کریں؟
جواب: توبہ کی حقیقت گناہ سے پشیمان ہونا ہے اس لیے کہا گیا ہے کہ پشیمانی ہی توبہ ہے اور حقیقی پشیمانی یہ ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے گناہ ترک کرنے کا مستحکم ارادہ رکھتا ہو، اور گذشتہ گناہوں کا جبران کرے، اگراس کا گناہ حق اللہ ہے تو اس کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے، اگر اس عمل کی قضاء یا کفارہ ہو تو ادا کرے اور اگر حق الناس ہے تو اسے راضی کرے اور اگر ایسا کرنے سے اس کی توہین ہوتی ہو تو ہدیہ کے عنوان سے اسے دے سکتا ہے یا پھر اس کے اکائونٹ میں بھیج دے۔
توبہ فقط استغفراللہ کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستحکم ارادہ ہو کہ گناہ سے دوری کرے اورحتی الامکان اس کی بھرپائی کرے۔
گناھکار انسان کو خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے خدا وند مہربان اور بخشنے والا ہے اور توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ : ( ایک لمحہ کی فکرستّر سال کی عبادت سے بہتر ہے)
‎ ‎ وہ چیزیں جو توبہ کرنے میں ماثّر ہے خداوند کی عظمت، اس کا بندوں پر حق، وہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے ان تمام چیزوں کے بارے میں فکر کرنا جیسا کہ حدیث میں امیر المومنین ع سے منقول ہے : تنہائی میں بھی خداوند کی معصیت سے ڈریں کیونکہ جو خدا دیکھ رہا ہے وہی حکم کرنے والا بھی ہے۔
توبہ
۴۵ سوال: مھم ترین تعلیمات اسلامی میں سے ہے کہ معاشرے میں نظام اسلامی کی رعایت کی جائے مگر ہم دل برداشتہ ہیں معاشرے کی اس بری رسم سے کہ جو بعض لوگوں کسی نہ کسی مناسبت پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں،اس سے خوف اور شدید رعب پیدا ہو جاتا ہے اور خصوصا بچوں کیلئے زیادہ مشکل ہوتی ہے حتی کہ اس بری رسم کی وجہ سے بعض اوقات تو لوگ اور بچے موت کا شکار ہوگئے ۔اس بارے میں آپ کچھ ارشاد فرمائیں شاید کہ ایسے لوگ اللہ جل جلالہ کہ حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اس کام سے باز آجائیں۔
جواب: بلا سبب فائرنگ کرنا ہر گز جائز نہیں جبکہ یہ کام لوگوں کیلئے خوف اور اذیت کا باعث بنے۔ اور ہر وہ شخص جو کسی کے زخمی ہونے یا کسی کی موت میں سبب بنے ، شرعی طور پر ضامن ہوگا جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔بہرحال یہ ہوائی فائرنگ کی رسم اپنے منفی آثار اور نقصان کی وجہ سے معاشرے کہ آداب اور اخلاق کہ منافی ہے اور ہم تمام مؤمنین کو اس سے اجتناب کرنے کی نصٰحت کرتے ہیں اللہ تعالی ہم سب کہ نیک اعمال کی توفیق خیر دے۔
ہوائی فائرنگ
۴۶ سوال: حسد کیا ہے اور کیا کسی سے حسد کرنا حرام ہے ؟
جواب: حسد نفسیاتی پستی ہے اور اسکی کیفیت یہ ہے کہ انسان دوسروں کہ پاس کوئی نعمت دیکھے تو اسکے زوال کی تمنی کرے، اکثر روایات سے ظاھر ہوتا ہے کہ حسد مطلقا حرام ہے لیکن کچھ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اعضاء و جوارح سے قولا یا فعلا اثر مرتب کیئے بغیر ( فقط احساس حسد ) معاف ہے البتہ زیادہ بہتر احتیاط یہ ہے کہ اس بات کا اھتمام کیا جائے کہ حسد پیدا ہی نہ ہو اور اگر(خدا نہ خواستہ ) ہوجائے تو اسکو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
حسد
۴۷ سوال: شریعت اسلامی میں کون سے کام حرام ہیں ؟
جواب: شریعت اسلامی میں جو کام حرام ہیں ان میں سے کچھ اھم یہ ہیں۔
۱ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونا ۔
۲ گناہوں کے ارتکاب پر بے اعتناء ہوکر عذاب الٰہی سے مطمئن ہوجانا اور خدا تعالی کی شدید گرفت سے غفلت برتنا ۔
۳ تعرب بعد الھجرت، یعنی ایسے ممالک میں سکونت اختیار کرنا جہاں ایک
مسلمان کا دین یا عقائد حقہ پر ایمان کمزور ہوجائے یا وہاں اپنے واجبات پر عمل نہ کر سکتا ہو یا محرمات سے پرہیز نہ کر سکے۔
۴ ظالمین کی مدد کرنا یا ان کا معاون و آلہ کار بننا ، اور اسہی طرح ان کی طرف سے منصب قبول کرنا سوائے یہ کہ جب اصل کام مشروع و جائز ہو اور اس منصب کو قبول کرنا مسلمین کی مصلحت میں ہو ۔
۵ کسی مسلمان کا قتل کرنا ، بلکہ کسی بھی محقون الدم (وہ کافر جس کی جان کی حفاظت مسلمان ملک میں فرض ہو) ،اور ظلم و ستم کرنا بھی قتل ہی کی طرح حرام ہے جیسے اسے مار نا یا زخمی کرنا ۔ اور بچہ ساقط کرنا بھی قتل کے حکم میں ہے چاہے روح داخل ہونے سے پہلے ہی ہو یا مضغہ (لوتھڑا) یا علقہ (جما ہوا خون) ہوتو بھی حرام ہے۔
۶ مومن کی غیبت کرنا ،یعنی اسکی غیر موجودگی میں اسکی کوئی ایسی برائی ذکر کرنا جو لوگوں میں معلوم نہ ہو۔ چاہے ایسا کرنا اسکی شان گھٹانے کے لئے نہ بھی ہو ۔
۷ مومن کو گالی دینا یا اس پر لعنت کرنا ،اس کی اھانت کرنا یا اسے رسواء کرنا ،اس کی نقل اتارنا،اسے ڈرانا دھمکانا اور اسکے راز کو فاش کرنا اسکی غلطیوں کی تاک لگانا یا اس کو حقیر جاننا خاص کر کہ جب وہ فقیر ہو۔
۸ مومن پر بھتان باندھنا جس کا معنی یہ ہے کہ اسکی برائی کی جائے جبکہ وہ برائی اس میں نہ پائی جاتی ہو۔
۹ مومنین کے درمیان چغل خوری کرنا جس کی وجہ سے انکے درمیان تفرقہ پیدا ہو۔
۱۰ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا۔
۱۱ شادی شدہ مومن یا مومنہ پر زنا جیسی فحاشی کا الزام لگانا جبکہ اس پر گواہ نہ ہوں۔
۱۲ کسی مسلم کو خرید و فروخت جیسے معاملات میں دھوکہ دینا چاہے گھٹیا چیز کو عمدہ مال میں چھپا کر ہو یا نا پسندیدہ چیز کو پسندیدہ اشیاء میں ملا کر ہو یا مال کی کوئی خوبی بیان کی جائے جبکہ وہ خوبی اس میں نہ ہوں ،یا کوئی چیز اسکی جنس کہ برخلاف دکھائی جائے یا کسی بھی طرح کا دھوکہ ہو حرام ہے۔
۱۳ فحش کلامی کرنا ،یعنی ایسا کلام کرنا کہ جس کا ذکر قبیح ہو ۔
۱۴ غداری کرنا دھوکہ دینا ، خیانت کرنا چاہے غیر مسلمین کے ساتھ ہو۔
۱۵ حسد کرنا جبکہ اسکا اثر ظاہر کیا جائے چاھے قول میں یا فعل سے البتہ اثر ظاہری کے بغیر فقط حسد کا احساس ہونا حرام تو نہیں مگر بری صفات میں سے ہے، ہاں البتہ( غبطہ) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ یہ کہ تمنیٰ کرے کہ اللہ اسے بھی ویسا ہی رزق عطاء فرمائے کہ جیسا فلاں شخص کو عطاء کیا ہے جبکہ اس دوسرے سے اس رزق کہ زوال کی تمنیٰ نہ رکھتا ہو۔
۱۶ زنا ،لواط ،سحق ،استمناء اور سوائے شوہر و بیوی کی باھمی لذت کے دیگر ہر قسم کی جنسی لطف اندوزی حتی کہ شھوت کیساتھ کسی کو لمس کرنا بلکہ شھوت سے دیکھنا بھی حرام ہے۔
۱۷ قیادۃ یا بدکاری کیلئے دلالی کرنا یا کسی دو افراد کے درمیان زنا یا لواط
یا سحق کیلئے رابطہ کروانا ۔
۱۸ دیوث بننا ،یعنی کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا جیسی بدکاری کرتے دیکھے مگر خاموشی اختیار کرلے یا اسے اس برے کام سے نہ روکے۔
۱۹ مرد کا عورت کا مشابھ بننا اور بنا بر احتیاط لازم اس کے برعکس عورت کا مرد کے مشابھ بننا ۔اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک دوسرے کی ھیئت اختیار کرنا اور دوسری جنس سے مشابھ لباس پہننا۔
۲۰ مرد کیلئے خالص اور قدرتی ریشم پہننا اور اسہی طرح مرد کا سونا پہننا ، بلکہ احتیاط لازم ہے کہ مرد سونے سے اپنے بدن کی ہر طرح کی زینت ترک کرے چاہے سونے کو پہننا صدق نہ بھی آئے۔
۲۱ بغیر علم اور دلیل کے بات کرنا۔
۲۲ جھوٹ بولنا چاہے اس سے کسی دوسرے کو ضرر نہ بھی پہنچے۔اور سب سے بد تر جھوٹ ،جھوٹی گواہی دینا ہے ،جھوٹی قسم کھانا اور ایسا فتوی دینا کہ جو خدا کی طرف سے نازل کردہ حکم کے مطابق نہ ہو۔
۲۳ وعدہ خلافی کرنا ، ااور احتیاط لازم کی بنا پر ایسا وعدہ کرنا بھی حرام ہے جسے شروع سے ہی وفاء نہ کرنے کا قصد ہو ، حتی کہ گھر والوں کی ساتھ بھی ایسا وعدہ جائز نہیں ۔
۲۴ سود خوری چاہے معاملے میں ہو یا قرض میں، اور جیسا کہ سود کھانا حرام ہے تو سود لینا بھی ، سود دینا بھی اور سود پر مشتمل معاملہ کا اجراء کرنا بھی حرام ہے بلکہ ایسے معاملہ کو لکھنا یا اس پر گواہ بننا بھی حرام ہے۔
۲۵ شراب پینا اور دیگر نشہ آور مایع اشیاء جیسے فقاع (بیئر) اور انگور کا ابال آیا ہوا شربت پینا جبکہ اس کا دو تہائی حصہ نہ گیا ہو۔
۲۶ خنزیر کا گوشت کھانا ، یا دیگر حرام گوشت جانور کھانا ، اور ایسا جانور کھانا کہ جس کو شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو۔
۲۷ تکبر و اختیال کرنا اور وہ یہ کہ انسان خود کو بغیر کسی معقول وجہ کہ دوسروں سے بر تر و بالا ظاہر کرے۔
۲۸ قطع رحم کرنا اور وہ اس طرح کہ انسان رشتہ داروں کے ساتھ کسی بھی ممکن و متعارف طریقے سے احسان کرنا چھوڑ دے۔
۲۹ عاق والدین ، یعنی ان سے کسی بھی طرح کی بد سلوکی کرنا کہ جو ان کے حق میں احسان فراموشی شمار ہو ،جبکہ ایسے امور میں انکی مخالفت کرنا بھی جائز نہیں کہ جن میں انہیں، انکی اولاد پر شفقت کی وجہ سے اذیت ہوتی ہو۔
۳۰ اسراف اور تبذیر کرنا ، اور اسراف سے مراد یہ کہ مال کو مناسبت سے زیادہ مقدار میں صرف کرنا جبکہ تبذیر یہ کہ مال کو ایسے مورد میں صرف کرنا جو کہ اصلا غیر مناسب ہو۔
۳۱ میزان یا ترازو کے تول میں کمی کرنا یا اس جیسی چیزوں حق مارنا جیسا کہ وزن یا فیتہ وغیرہ سے مقدار ناپتے ہوئے پورا حق ادا نہ کرے۔
۳۲ کسی مسلمان کے مال میں اسکی رضا مندی اور اسکی خوشی کہ بغیر تصرف کرنا۔
۳۳ کسی مسلمان کو کسی بھی طرح کا مالی ،جانی یا اسکی عزت پر ضرر پہنچانا ۔
۳۴ جادو- سحر کرنا یا کروانا ،حتی کہ سیکھنا یا سکھانا یا اس کہ ذریعے پیسا کمانا ۔
۳۵ کہا نت یا نجومی کا کام کرنا ، اس سے کمائی کرنا یا کسی نجومی فال نکالنے والے کی طرف رجوع کرنا یا اسکی دی ہوئی اخبار کی تصدیق کرنا ۔
۳۶ قضاوت میں فیصلے کیلیئے رشوت دینا اور لینا چاہے فیصلہ حق پر ہی ہو ،البتہ ظالم سے جائزحق نکالنے کیلئے رشوت دینی پڑے تو دی جا سکتی ہے مگر لینے والے کیلئے لینا حرام ہے۔
۳۷ غناء- گانا یا گلوکاری کرنا ۔ اور قرآن یا دعاوں کو گانے بجانے کے لحن میں پڑھنا بھی اسہی حکم میں ہے ۔اور بنا بر احتیاط لازم کسی غیر لھو و لعب والے کلام کو بھی لھو لعب کے انداز سے پڑھنا، جائز نہیں ہے۔
۳۸ آلات لھو کا استعمال ،جیسا کہ دف ، طبلہ یا بانسری بجانا یا کسی قسم کے تاروں و الے آلات کو اس طرح بجانا کہ اس سے مجالس لھو ولعب کی جیسی موسیقی پیدا ہو۔
۳۹ جوا کھیلنا ، چاہے جوئے کے مخصوص آلات سے ہو جیسا کہ شطرنج ، نرد( پاسہ کھیلنا ) یا دوملہ(چورس کا کھیل) یا آلات کہ بغیر ، جبکہ اس پرشرط رکھنا بھی حرام ہے ،جیسا کے شطرنج و نرد وغیرہ کو شرط کہ بغیر کھیلنا بھی حرام ہے بلکہ جوئے کے دیگر آلات سے بغیر شرط کے کھیلنا بھی بناء بر احتیاط لازم حرام ہے۔
۴۰ عبادات اور اطاعت خداوندی کے کاموں میں ریاء کاری اور دکھاوا کرنا۔
۴۱ خود کشی کرنا یا اپنے آپ کو کوئی بڑا ضرر پہنچانا جیسا کے جسم کے بعض اعضاءئے رئیسہ کو زائل یا معطل کرلینا جیسا کہ ہاتھ ،پائوں کو کاٹ لینا یا شل کرنا۔
۴۲ مومن کا اپنے نفس کو ذلیل کرنا ، جیسا کہ اسکا ایسا لباس پہننا کہ جو اسکو لوگوں کی نظر میں بد نما یا قبیح ظاھر کرے۔
۴۳ گواہی کو چھپانا ایسے شخص کیلئے کہ جس کو کسی موقع پر گواہ بنایا گیا ہو اور پھر جب گواہی طلب کی جائے تو گواہی نہ دے۔بلکہ اگر مظلوم کو ظالم سے تمیز دینے کیلئے ضرورت پڑے تو چاہے کسی نے اسے گواہ نہ بھی بنایا ہو ،تو مظلوم کی مدد کے وقت گواہی کا چھپانا حرام ہے۔
اس کے علاوہ بھی شریعت اسلامی کے محرمات ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر اس رسالہ کے ضمن میں ہوا ہے جیسا کہ یہاں ان محرمات سے متعلق بعض مورد میں استثناء وغیرہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔
محرمات شريعت اسلامی
۴۸ سوال: بعض مومنین ایک اسلامی مرکز کی طرف سے ایک قرعہ اندازی طے کرتے ہیں اور اسکے ٹکٹ فروخت کرتے ہیں جسکا انعام یہ ہے کہ جسکا نام نکلے گا اسے حج بیت اللہ یا زیارات مقدسہ کیلئے تمام اخراجات کے ساتھ بھیجا جائے گا ۔اب لوگ جو یہ ٹکٹ خریدتے ہیں اس احتمال پر کہ شاید انکا نام نکل آئے تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب: اگر ٹکٹ خریدنے کا عنوان یہ ہو کے اس کی قیمت اس اسلامی مرکز کو دی جاتی ہے تاکہ وہ جسکا نام نکلے اسے حج پر بھیج دیں ،تو جائز ہے ۔اور اگر مال خود ٹکٹ کے بدل دیا جائے تو جائز نہیں ۔
قرعہ اندازی
۴۹ سوال: شرعی قسم کیا ہے؟ اس بارے میں تفصیل سے وضاحت فرمائیے کہ کب اس کی مخالفت حرام ہوتی ہے اور کب کفارہ لازم ہے؟
جواب: یمین یا حلف یا قسم تین طرح کی ہیں۔
۱ کسی بات کی ماضی ،حال یا مستقبل میں تاکید یا تردید کے لئے قسم کھائی جائے جیسے (واللہ کل زید آگیا ہے) یا (با خدا یہ میرا مال ہے) یا مستقبل میں ( اللہ کی قسم فلان اس دن آجائے گا) اسطرح کی قسم (یمین الاخبار) کہلاتی ہے۔
۲ دوسری صورت یہ ہے کہ جس میں کسی شخص کو قسم دی جائے اور اس کے ساتھ کوئی طلب یا التماس کی جائے۔ جیسے کہے (تمہیں اللہ کی قسم ہے کہ یہ کام نہ کرنا) اس میں قسم دینے والے کو (حالف) اور دوسرے کو (محلوف علیہ) کہا جاتا ہے۔اور اس طرح کی قسم کو (یمین مناشدہ )یا واسطہ دینا کہا جائے گا۔
۳ تیسری قسم یہ ہے کہ انسان نے جس بات کو اپنے ذمہ لازم کیا ہے چاھے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کیلئے اسکی تاکید کے لئے قسم اٹھائی ہو ۔جیسے (و اللہ میں کل روزہ رکھوں گا ) یا (خدا کی قسم میں آج کہ بعد سگریٹ نہیں پیوں گا)۔ اسے(یمین عقد) کہتے ہیں۔
قسم اول (یمین الاخبار) کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا مگر یہ کہ بغیر علم کے قسم کے ذریعے خبر کی تاکید کرنا گناہ ہے۔ مگر کفارہ نہیں ہے ۔ایسی قسم اگر سچی ہو تو بھی مکروہ ہے جبکہ جھوٹی قسم کھانا تو حرام ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ گناہان کبیرہ میں سے ہو جائے،جیسا کہ( یمین الغموس) جو کے قضاوت اور فیصلے کے مورد میں ایک جھوٹی قسم ہے۔ البتہ اگرظالم کہ ظلم سے بچنے یا مومنین کو بچانے کیلئے جھوٹی قسم کھائی جائے تو وہ مستثنیٰ ہے۔ اور اسکی تفصیل اپنے مقام پر مذکور ہے۔
قسم دوم (یمین مناشدہ)۔واسطہ دینا۔ اس طرح کی قسم منعقد نہیں ہوتی اور اس میں نہ (حالف) نہ (محلوف علیہ) کسی پر کوئی اثر نہیں ، نہ ہی کفارہ ہے اور جس کو قسم کے ذریعے واسطہ دیا گیا ہو اگر وہ درخواست کو رد بھی کردے تو کوئی گناہ نہیں۔
تیسری قسم (یمین العقد) اگر شرائط پوری ہوں تو منعقد ہوجائے گی اور اسکا التزام کرنا ہوگا یعنی وفاء واجب اور مخالفت حرام ہو جائے گی اور کفارہ بھی ہوگا۔
قسم -حلف -یمین
۵۰ سوال: ہم مرجع العالی سید محترم سے متمنی ہیں کے عقوق والدین کے موضوع پر بچوں کے لئے نصیحت فرمائیں۔
جواب: قطع رحم کی سب سے بری صورت عقوق والدین ہے کے جن کے بارے میں اللہ عزّ و جلّ نے ان کے ساتھ نیکی اوراحسان کی وصیت کی ہے۔ اور اپنی کتاب کریم میں فرمایا: وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيماً* اور امام علیہ سلام نے فرمایا کے ادنی عقوق (اف )ہے ، اگراللہ عز و جل اس سے کم کوئی چیز جانتا تو اس سے بھی منع کردیتا۔
اور امام ابو جعفر علیہ سلام فرماتے ہیں کہ میرے والد(علیہ سلام) نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے ساتھ اسکا لڑکا باپ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے لدھا ہوا چل رہا تھا تو اس سے میرے والد (ع) نے ناراضگی کے سبب مرتے دم تک کبھی بات نہیں کی۔ اور امام جعفر صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ (جس نے اپنے والدین کی طرف غضب ناک نگاہ کی اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کرتے ہوں،تو اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرے گا۔ اور اسکے علاوہ بھی عقوق والدین کے بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اس کے بر عکس
(بر الوالدین) کہ جو تقرب الٰہی کا بہترین طریقہ ہے اور اس بارے میں اللہ عز و جل نے کتاب کریم میں فرمایا (واخفض لهما جناح الذلِّ من الرحمة وقل ربّ ارحمهما كما ربياني صغيرا) اور ان دونوں کے لئے اپنے شانوں کو نرمی کے ساتھ جھکائے رکھو اور کہو کہ اے رب ان دونوں پر ویسے ہی رحمت فرما کہ جیسے انہیوں نے مجھے کم سنی میں پالا پوسہ ۔ ابراھیم ابن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے اباعبد اللہ (ع) سے کہا کے میرے والد بہت سن رسیدہ اور کمزور ہوچکے ہیں اور جب انہیں کوئی حاجت ہوتی ہے تو ہم انہیں اٹھا کر لئے پھرتے ہیں، تو امام ؑ نے فرمایا کہ اگر اس سےبڑھ کر اور بھی کچھ کر سکو تو کرنا اور انہیں اپنے ہاتھ سے لقمے بنا کر کھلانا ،بے شک کل یہی تمھارے لئے نجات کا سبب ہوگا۔ اور احادیث شریفہ میں باپ سے پہلے ماں سے صلہ رحم کرنے کی تاکید وار ہوئی ہے ، جیسا کہ امام صادق علیہ سلام نے فرمایا کہ ایک شخص جناب النبی محمد صلی اللہ علی و الہ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ص میں کس کے ساتھ نیکی اور اچھائی کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ : اس نے کہا کے پھر کس کے ساتھ ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، اس نے کہا پھر کس کے ساتھ؟ آپ ص نے پھر فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، ،کہا پھر کس کے ساتھ؟ حضور نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ۔
عاق والدین
نیا سوال بھیجنے کے لیے یہاں کلیک کریں
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français