فتووں کی کتابیں » مختصر احکام عبادات
تلاش کریں:
دوسری قسم : زکوٰۃ فطرہ ( فطریہ) ←
→ بھیڑ کا نصاب
گائے اور بھینس کا نصاب
پہلا نصاب : تیس عدد ( گائے اور بھینس) اس کی زکوٰۃ ایک بچھڑا ہے جو دوسرے سال میں داخل ہوگیا ہو۔
دوسرا نصاب : چالیس عدد، اس کی زکوٰۃ ایک مادہ بچھڑاہے جو تیسرے سال میں داخل ہوگیاہو۔
دوسری شرط : مذکورہ جانوروں نے قدرتی گھانس پھونس سے چراہو پس اگر ان کےلئے گھانس فراہم کی جارہی ہو جیسے کہ خرید ی ہوئی گھانس، یا کاٹی گئی گھانس سے کھائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے گرچہ انہیں سال کے کچھ حصّے میں اس طرح کھلایا جارہا ہو۔
تیسری شرط : جانوروں کا مالک یا اس کا ولی پورے سال میں ان میں تصرّف کر سکتاہوپس اگر ایک قابل توجہ مدّت کے لئے جانور چوری کرلیاجائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
چوتھی شرط : جانوروں کا مالک پورے گیارہ مہینے جانور کو اپنی ملکیت میں رکھے اس طرح سے کہ بارہواں مہینہ داخل ہوتے وقت بھی اس کی ملکیت میں ہو۔ 6/69
مسئلہ ۱۳۹۔ سونے اور چاندی کی شکل میں نقد پیسوں پر زکوٰ ۃ واجب ہونے کے شرائط درجہ ذیل ہیں :
پہلی شرط: سونے کی مقدار پندرہ مثقال صیر فی ہےکہ مجموعی طور پر 6/69گرام ہوگا، اس صورت میں مالک کو چاہئے کہ اس کا ( دو ونیم فیصد) زکوٰۃ کے طور پر ادا کرے اور ( پندرہ میں ) پھر تین مثقال( تقریباً ۹۲؍۱۳) کے اضافہ پر اس کی زکوٰۃ بھی اُسی ( دوو نیم فیصد) کے حساب سے ادا کرے۔
اور چاندی کی مقدار جب ایک سو پانچ مثقال ہو جو کہ تقریباً ۴۸۷ گرام ہے، تو مالک پر لازم ہے کہ اسکا دو نیم فیصد زکوٰۃ کے طور پر اداکرے اور (۴۸۷ گرام میں) ہر اکتیس مثقال ( تقریباً ۴۴؍۹۷ گرام) کے اضافے پر اُس کی زکوٰۃ بھی ( اُسی دوونیم فیصد) کے حساب سے ادا کرے۔
دوسری شرط : مالک پورے گیارہ مہینے سونے اور چاندی اپنی ملکیت میں رکھے اس طرح سے کہ بارہویں مہینے میں داخل ہوتے وقت بھی اس کی ملکیت میں رہے۔
تیسری شرط : مالک پورے سال اس میں تصرّف کر سکتاہو اس لئے اگر قابل توجہ مدّت کے لئے غایب ہوجائے تو اُس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
چوتھی شرط : مالک بالغ اور عاقل ہو اس لئے نابالغ اور دیوانہ بچے کے مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۴۰۔ سونا اور چاندی پر درجہ ذیل صورتوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے :
۱۔ سونے اور چاندی کی اینٹیں اور اسی طرح اِس زمانہ میں سونے اور چاندی کے سکّے جن کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
۲۔ سونے او ر چاندی سے بنے ہوئے زیورات ـ۔
۳۔ سونے اور چاندی کا نقد پیسہ جس سے لین دین رائج نہیں ہے جیسے عثمانی سکّے جسے بعض عورتیں زینت کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
اور اسی طرح اِس زمانے میں جو سکّے رائج ہیں جو سونےاور چاندی کے نہیں ہیں اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۴۱۔ چار غلّوں پر زکوٰۃ دو شر ط کے ساتھ واجب ہے :
پہلی شرط : نصاب کی مقدار ہو، ان کا نصاب سوکھنے کے بعد تین سو صاع ہے جو تقریباً ( ۸۴۷ گرام) بیان کیاگیاہے اور ان کی زکوٰۃ کی مقدار درجہ ذیل ہے :
۱۔ اگر ان کی آبیاری کے لئے بارش، یا نہر وغیرہ کے پانی کا استعمال کیاہو اس طرح سے کہ مالک کو آبیاری کرنے کے لئے کوئی کوشش اور تلاش یا کسی چیز سے مدد لینے کی ضرورت نہ پڑی ہو تو اِس صورت میں ان کی زکوٰ ۃ دس فیصد ہوگی۔
۲۔ اگر ان کی آبیاری ہاتھ یا کسی آلہ کے ذریعے جیسے موٹر پمپ وغیرہ سے کی جائے تو اس صورت میں ان کی زکوٰۃ پانچ فیصد ہوگی۔
۳۔ اگر ان کی آبیاری کبھی بارش کے پانی اور کبھی ہاتھ یا کسی آلہ کے ذریعے ہوتو اس صورت میں اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات فیصد ہوگی، مگر یہ کہ کسی ایک طریقے سے آبیاری بہت کم اور ناچیز ہوئی ہو جو عرف عام شمار نہ کی جائے تو اس صور ت میں غالب طریقے کے مطابق عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
دوسری شرط : مذکورہ غلّے پر زکوٰۃ واجب ہوتے وقت مکلّف کی ملکیت میں ہو ں پس اگر وقت کے بعد انسان کی ملکیت میں آئیں تو ان کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے، البتہ اگر مکلّف کو علم ہوکہ غلّوں کے مالک نے ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے تو واجب ہے کہ خود اس کی زکوٰۃ ادا کرے اور چنانچہ غلّوں کو خرید نے وغیرہ کے ذریعے اپنی ملکیت میں لیاہو اور بیچنے والے نے واقعیت بیان نہ کرتے ہوئے اُسے فریب دیاہو تو ادا کی گئی زکوٰۃ کی مقدار اُس سے مطالبہ کر سکتاہے۔
مسئلہ ۱۴۲۔ تجارت کے مال پر زکوٰۃ واجب ہونے کے شرائط درجہ ذیل ہیں:
۱۔ مالک بالغ اور عاقل ہو۔
۲۔ مال نصاب کی مقدار میں ہو، اور تجارت کے مال کا نصاب سونے اور چاندی کے سکّوں کی طرح ہے یعنی ان کی قیمت پندرہ مثقال صیر فی سونا یا ایک سو پانچ مثقال چاندی ہونا چاہئے۔
۳۔ تجار ت کا مال :معاوضہ جسے خریدنے کے ذریعے اس کی ملکیت میں آیا ہو اور عین مال فائدہ حاصل کرنے کے قصد سے ایک سال تک اس کے اختیار میں رہے۔
۴۔ پورے سال تجارت کے مال سے تجار ت کرنے کا قصد رکھتاہو۔
۵۔ مالک پورے سال تجارت کے مال میں تصرّف کر سکتاہو۔
۶۔ پورے سال بازار میں تجار ت کے مال کی قیمت خریدی ہوئی قیمت سے کم نہ ہو۔
لازم الذکر ہےکہ تجار ت کے مال کی زکوٰۃ دوو نیم ( ڈھائی) فیصد ہے۔
مسئلہ ۱۴۳۔ زکوٰۃ آٹھ مقامات میں مصرف کی جائے گی :
پہلا اور دوسرا : غریب اور مسکین، یعنی ایسے افراد جو خود اور اہل و عیال کا سالانہ خرچ نہ رکھتے ہوں، اورکوئی ایسا کام اور پیشا بھی نہ ہو جس سے سالانہ خرچ پوراہوسکے، غریب اور مسکین میں یہ فرق ہے کہ مسکین کے مالی حالات غریب سے بھی زیادہ برے ہوتے ہیں جیسے کہ اپنے روزانہ کےضروری اخراجات بھی نہ رکھتاہو۔
تیسرا: زکوٰۃ کے عملہ اور مزدور، یعنی وہ افراد جو پیغمبر اسلام ؐ امام معصوم ؈ یا حاکم شرع یا اس کے نائب کی طرف سے مامور ہوئے ہیں تاکہ زکوٰۃ جمع کرے اس کا حساب کتاب کریں، اور جمع شدہ مال کو انہیں یا مستحق تک پہونچائیں۔
چوتھا: المولّفۃ قلو بُہم، ایسے مسلمان جن کا ایمان کمزور ہے اور اگر انہیں زکوٰۃ دی جائے تو ان کاایمان مضبوط ہوگا، اور اسی طرح ایسے کافر جنہیں اگر زکوٰۃ دی جائے تو دین اسلام کی طرف رغبت پیدا کریں گے، تاکہ مسلمانوں کو خود سے دفاع کرنے میں مدد کریںـ ۔
پانچواں : غلام خرید کر آزاد کرنا۔
چھٹا : مقروض افراد، یعنی ایسے مقروض افراد جو اپنا مشروع قرض ادا نہیں کرسکتے۔
ساتواں : فی سبیل اللہ : اس سے مراد زکوٰۃ کو ایسے کار خیر میں خرچ کرنا ہے جس کا فائدہ عام لوگوں تک پہونچے جیسے مسجد، مدرسہ اور فلاحی ادارے وغیرہ۔
آٹھواں : ابن سبیل : اس سے مراد وہ مسافر ہے جو راستے میں نادار ہوگیا ہو یعنی اس کے پیسے ختم ہوگئے ہوں اور اپنے شہر واپس نہ جاسکتاہو مگریہ کہ جانے کا خرچ اُسے دیاجائے۔
مسئلہ ۱۴۴۔جس شخص کو زکوٰۃ د ی جارہی ہو وہ شیعہ اثناعشری ہو نا چاہئے اور زکوٰۃ کو حرام کام میں خرچ نہ کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر شرابی، بے نمازی اور کھلے عام گناہ کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
اور اسی طرح لازم ہے کہ اس شخص کا نان و نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہ ہو جیسے بیوی اور اگر زکوٰۃ دینے والا غیر ہاشمی ہو تو زکوٰۃ لینے والا بھی خود کی طرح غیر ہاشمی ہونا چاہئے۔
دوسری قسم : زکوٰۃ فطرہ ( فطریہ) ←
→ بھیڑ کا نصاب
دوسرا نصاب : چالیس عدد، اس کی زکوٰۃ ایک مادہ بچھڑاہے جو تیسرے سال میں داخل ہوگیاہو۔
دوسری شرط : مذکورہ جانوروں نے قدرتی گھانس پھونس سے چراہو پس اگر ان کےلئے گھانس فراہم کی جارہی ہو جیسے کہ خرید ی ہوئی گھانس، یا کاٹی گئی گھانس سے کھائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے گرچہ انہیں سال کے کچھ حصّے میں اس طرح کھلایا جارہا ہو۔
تیسری شرط : جانوروں کا مالک یا اس کا ولی پورے سال میں ان میں تصرّف کر سکتاہوپس اگر ایک قابل توجہ مدّت کے لئے جانور چوری کرلیاجائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
چوتھی شرط : جانوروں کا مالک پورے گیارہ مہینے جانور کو اپنی ملکیت میں رکھے اس طرح سے کہ بارہواں مہینہ داخل ہوتے وقت بھی اس کی ملکیت میں ہو۔ 6/69
مسئلہ ۱۳۹۔ سونے اور چاندی کی شکل میں نقد پیسوں پر زکوٰ ۃ واجب ہونے کے شرائط درجہ ذیل ہیں :
پہلی شرط: سونے کی مقدار پندرہ مثقال صیر فی ہےکہ مجموعی طور پر 6/69گرام ہوگا، اس صورت میں مالک کو چاہئے کہ اس کا ( دو ونیم فیصد) زکوٰۃ کے طور پر ادا کرے اور ( پندرہ میں ) پھر تین مثقال( تقریباً ۹۲؍۱۳) کے اضافہ پر اس کی زکوٰۃ بھی اُسی ( دوو نیم فیصد) کے حساب سے ادا کرے۔
اور چاندی کی مقدار جب ایک سو پانچ مثقال ہو جو کہ تقریباً ۴۸۷ گرام ہے، تو مالک پر لازم ہے کہ اسکا دو نیم فیصد زکوٰۃ کے طور پر اداکرے اور (۴۸۷ گرام میں) ہر اکتیس مثقال ( تقریباً ۴۴؍۹۷ گرام) کے اضافے پر اُس کی زکوٰۃ بھی ( اُسی دوونیم فیصد) کے حساب سے ادا کرے۔
دوسری شرط : مالک پورے گیارہ مہینے سونے اور چاندی اپنی ملکیت میں رکھے اس طرح سے کہ بارہویں مہینے میں داخل ہوتے وقت بھی اس کی ملکیت میں رہے۔
تیسری شرط : مالک پورے سال اس میں تصرّف کر سکتاہو اس لئے اگر قابل توجہ مدّت کے لئے غایب ہوجائے تو اُس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
چوتھی شرط : مالک بالغ اور عاقل ہو اس لئے نابالغ اور دیوانہ بچے کے مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۴۰۔ سونا اور چاندی پر درجہ ذیل صورتوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے :
۱۔ سونے اور چاندی کی اینٹیں اور اسی طرح اِس زمانہ میں سونے اور چاندی کے سکّے جن کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
۲۔ سونے او ر چاندی سے بنے ہوئے زیورات ـ۔
۳۔ سونے اور چاندی کا نقد پیسہ جس سے لین دین رائج نہیں ہے جیسے عثمانی سکّے جسے بعض عورتیں زینت کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
اور اسی طرح اِس زمانے میں جو سکّے رائج ہیں جو سونےاور چاندی کے نہیں ہیں اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۴۱۔ چار غلّوں پر زکوٰۃ دو شر ط کے ساتھ واجب ہے :
پہلی شرط : نصاب کی مقدار ہو، ان کا نصاب سوکھنے کے بعد تین سو صاع ہے جو تقریباً ( ۸۴۷ گرام) بیان کیاگیاہے اور ان کی زکوٰۃ کی مقدار درجہ ذیل ہے :
۱۔ اگر ان کی آبیاری کے لئے بارش، یا نہر وغیرہ کے پانی کا استعمال کیاہو اس طرح سے کہ مالک کو آبیاری کرنے کے لئے کوئی کوشش اور تلاش یا کسی چیز سے مدد لینے کی ضرورت نہ پڑی ہو تو اِس صورت میں ان کی زکوٰ ۃ دس فیصد ہوگی۔
۲۔ اگر ان کی آبیاری ہاتھ یا کسی آلہ کے ذریعے جیسے موٹر پمپ وغیرہ سے کی جائے تو اس صورت میں ان کی زکوٰۃ پانچ فیصد ہوگی۔
۳۔ اگر ان کی آبیاری کبھی بارش کے پانی اور کبھی ہاتھ یا کسی آلہ کے ذریعے ہوتو اس صورت میں اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات فیصد ہوگی، مگر یہ کہ کسی ایک طریقے سے آبیاری بہت کم اور ناچیز ہوئی ہو جو عرف عام شمار نہ کی جائے تو اس صور ت میں غالب طریقے کے مطابق عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
دوسری شرط : مذکورہ غلّے پر زکوٰۃ واجب ہوتے وقت مکلّف کی ملکیت میں ہو ں پس اگر وقت کے بعد انسان کی ملکیت میں آئیں تو ان کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے، البتہ اگر مکلّف کو علم ہوکہ غلّوں کے مالک نے ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے تو واجب ہے کہ خود اس کی زکوٰۃ ادا کرے اور چنانچہ غلّوں کو خرید نے وغیرہ کے ذریعے اپنی ملکیت میں لیاہو اور بیچنے والے نے واقعیت بیان نہ کرتے ہوئے اُسے فریب دیاہو تو ادا کی گئی زکوٰۃ کی مقدار اُس سے مطالبہ کر سکتاہے۔
مسئلہ ۱۴۲۔ تجارت کے مال پر زکوٰۃ واجب ہونے کے شرائط درجہ ذیل ہیں:
۱۔ مالک بالغ اور عاقل ہو۔
۲۔ مال نصاب کی مقدار میں ہو، اور تجارت کے مال کا نصاب سونے اور چاندی کے سکّوں کی طرح ہے یعنی ان کی قیمت پندرہ مثقال صیر فی سونا یا ایک سو پانچ مثقال چاندی ہونا چاہئے۔
۳۔ تجار ت کا مال :معاوضہ جسے خریدنے کے ذریعے اس کی ملکیت میں آیا ہو اور عین مال فائدہ حاصل کرنے کے قصد سے ایک سال تک اس کے اختیار میں رہے۔
۴۔ پورے سال تجارت کے مال سے تجار ت کرنے کا قصد رکھتاہو۔
۵۔ مالک پورے سال تجارت کے مال میں تصرّف کر سکتاہو۔
۶۔ پورے سال بازار میں تجار ت کے مال کی قیمت خریدی ہوئی قیمت سے کم نہ ہو۔
لازم الذکر ہےکہ تجار ت کے مال کی زکوٰۃ دوو نیم ( ڈھائی) فیصد ہے۔
مسئلہ ۱۴۳۔ زکوٰۃ آٹھ مقامات میں مصرف کی جائے گی :
پہلا اور دوسرا : غریب اور مسکین، یعنی ایسے افراد جو خود اور اہل و عیال کا سالانہ خرچ نہ رکھتے ہوں، اورکوئی ایسا کام اور پیشا بھی نہ ہو جس سے سالانہ خرچ پوراہوسکے، غریب اور مسکین میں یہ فرق ہے کہ مسکین کے مالی حالات غریب سے بھی زیادہ برے ہوتے ہیں جیسے کہ اپنے روزانہ کےضروری اخراجات بھی نہ رکھتاہو۔
تیسرا: زکوٰۃ کے عملہ اور مزدور، یعنی وہ افراد جو پیغمبر اسلام ؐ امام معصوم ؈ یا حاکم شرع یا اس کے نائب کی طرف سے مامور ہوئے ہیں تاکہ زکوٰۃ جمع کرے اس کا حساب کتاب کریں، اور جمع شدہ مال کو انہیں یا مستحق تک پہونچائیں۔
چوتھا: المولّفۃ قلو بُہم، ایسے مسلمان جن کا ایمان کمزور ہے اور اگر انہیں زکوٰۃ دی جائے تو ان کاایمان مضبوط ہوگا، اور اسی طرح ایسے کافر جنہیں اگر زکوٰۃ دی جائے تو دین اسلام کی طرف رغبت پیدا کریں گے، تاکہ مسلمانوں کو خود سے دفاع کرنے میں مدد کریںـ ۔
پانچواں : غلام خرید کر آزاد کرنا۔
چھٹا : مقروض افراد، یعنی ایسے مقروض افراد جو اپنا مشروع قرض ادا نہیں کرسکتے۔
ساتواں : فی سبیل اللہ : اس سے مراد زکوٰۃ کو ایسے کار خیر میں خرچ کرنا ہے جس کا فائدہ عام لوگوں تک پہونچے جیسے مسجد، مدرسہ اور فلاحی ادارے وغیرہ۔
آٹھواں : ابن سبیل : اس سے مراد وہ مسافر ہے جو راستے میں نادار ہوگیا ہو یعنی اس کے پیسے ختم ہوگئے ہوں اور اپنے شہر واپس نہ جاسکتاہو مگریہ کہ جانے کا خرچ اُسے دیاجائے۔
مسئلہ ۱۴۴۔جس شخص کو زکوٰۃ د ی جارہی ہو وہ شیعہ اثناعشری ہو نا چاہئے اور زکوٰۃ کو حرام کام میں خرچ نہ کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر شرابی، بے نمازی اور کھلے عام گناہ کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
اور اسی طرح لازم ہے کہ اس شخص کا نان و نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہ ہو جیسے بیوی اور اگر زکوٰۃ دینے والا غیر ہاشمی ہو تو زکوٰۃ لینے والا بھی خود کی طرح غیر ہاشمی ہونا چاہئے۔